علمائے کرام کیلئے لمحہ فکر یہ

صوبے کے ایک پوش علاقے کی بڑی مسجد کی کمیٹی کے ایک رکن سے بات چیت کا موقع ملا اس مسجد کا شمار علاقے کی ایسی مسجد میں ہوتا ہے جہاں فجر کی نماز میں بھی تین چار سو نمازی موجود ہوتے ہیں یوں یہ ایک ایسی مسجد ٹھہر تی ہے کہ اس کے انتظامات اور مالیات کا نظام زیادہ مشکل نہیں مسجد کی تعمیر بھی اپنی مدد آپ کے تحت ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود اب پہلے جیسی بات نہیں رہی پہلے مسجد میں ایک اعلان پر مسجد کی ضرورت پوری کرنے کیلئے برموقع لوگ آ گے آ تے، مشورہ ہوتا اور کام ہو جاتا، رفتہ رفتہ صورتحال بدلتی گئی اب بھی صورتحال بری نہیں لیکن پہلی والی بات بھی نہیں رہی بزرگ بتاتے گئے اور میں غور سے سنتی گئی وہ ٹھہرے اور سفید داڑھی پر ہاتھ پھیر کے میری طرف متوجہ ہوئے تب میں نے پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے انہوں نے بولا سیدھی سی بات ہے کہ اب وہ لوگ ایک ایک کرکے اٹھتے جا رہے ہیں جن کو مسجد کی ضرورت کا احساس تھا وہ خود سے صفوں سے لیکر بجلی بل تک ہر چیز کی طرف متوجہ رہتے مشورے دیتے اور تعاون کرتے زیادہ سے زیادہ مسجد کی کمیٹی ان کے سامنے کوئی مطالبہ رکھتی تو دیر نہیں کرتے مذکورہ افراد کے سوفیصد نہیں تو ننانوے فیصد کا تعلق دنیا وی پیشوں سے تھا کاروباری افراد تھے مگر وہ دین کا درد رکھنے والے تھے ان کو اس امر کا احساس تھا کہ اصل بت کیا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے تجارت کے نفع سے آ گاہ تھے، وہ ٹھہرے ،گہرا سانس لیا اور بولے اولاد والدین کی طرح کم ہوتی ہے، پھر اچانک ان کو مسجد کے باہر لگا چندہ باکس یاد آ یا کہ کس طرح گزرتی خواتین اسے عطیات سے بھردیتی تھیں،اب اس میں بھی کمی آ گئی ہے میں نے پھر وجہ جاننا چاہی تو پھر کہنے لگے کہ اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں ایک وجہ تو میں آپ کو بتاچکا ہوں کہ اب وہ لوگ نہیں رہے دوسری وجہ شاید یہ ہے کہ مہنگائی بہت بڑھ چکی ہے اور لوگ بمشکل اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں میں نے ٹہو کا دیا کہ مسجد تو پوش علاقے میں واقع ہے ،انہوں نے کہا کہ اب پوش علاقوں کے مکین بھی متوسط طبقے میں آ چکے ہیں علاقے کے لوگوں سے بات چیت ہو تو اس کا اندازہ ہوتا ہے مارکیٹ جاؤ تو پتہ چلتا ہے کہ آمدنی مہنگائی اور افراط زر کی نذر ہوگئی ہے پھر مسجد کمیٹی میں بھی اس پر غور ہوتا ہے کہ اب پہلی والی بات کیوں نہ رہی ہم بزرگ مل بیٹھتے ہیں تو بھی بات ہوتی ہے کہ اب کیا حالات ہوگئے ہیں بچوں کو کن مشکلات کا سامنا ہے بہت سے احباب کہتے ہیں کہ وہ پنشن سے بچوں کی دستگیری نہ کریں تو ان کی اپنی آ مدنی میں گزارہ مشکل ہو جائے ایسے میں ایثار والے ہی تھوڑی سی رقم عطیہ کرسکتے ہوں گے ہر کسی سے تو گلہ ہی نہیں یہ تو ایک عمومی مسئلے کا تذکرہ ہوا ایک اور بڑی بات یہ ہے کہ اب کی نسل ایک تو خود معاشی دباؤ کا شکار ہے تو دوسری جانب وہ جذبہ بھی اس نسل کو منتقل نہیں ہوا جو ہم وراثت میں لئے آ رہے ہیں نئی نسل میں مادیت پرستی آ گئی ہے پچھلے ادوار قناعت پسند ی کے تھے پھر آ ج کی طرح قسم قسم کے کھانوں سے لیکر پہناوے بھی نہ تھے پھر ایک نہیں دو نہیں الماریاں بھری پڑی ہوتی ہیں ،برانڈڈ کے نام پر سو کی چیز ہزار وں میں بکتی ہے کوئی گھر بیٹھے بھی ان کی مصنوعات کی تشہیر سے محفوظ نہیں پھر آ ن لائن خریداری کی سہولت کے باعث گھر سے نکلے بغیر سب کچھ میسر آ جاتا ہے ایسے میں پیسہ پاس ہو تو خواہش کو دبانا ممکن نہیں ہوتا زیادہ سے زیادہ والدین خود پر جبر کرلیں گے بچوں کو تو روکا نہیں جاسکتا۔
با باجی تھوڑی دیر رکے پھر بولے میں معاشیات کا طالب علم ریا ہوں اور معاشی حالات کے ہر چیز پر اثرات مرتب ہوتے ہیں ان حالات کا ہمارے دین پر بھی اثر پڑے گا میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تو کہنے لگے کہ ہمارے ہاں کے مدارس کس طرح چلتی ہیں سرکاری طور پر تو ان کی سرپرستی نہیں ہوتی عام لوگ ہی عطیات دیتے ہیں نا وہ جو میں نے مسجد کو عطیات میں کمی کا ذکر کیا اور صورتحال بتائی یہاں بھی اسی طرح کا معاملہ متوقع ہے میرے خیال میں کچھ زیادہ وہ اس طرح سے کہ ہمارے علمائے کرام ایک جانب معاشرے کے جن طبقات سے عطیات لیتے ہیں دوسری جانب ان طبقات کو مطعون کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے آ پ کبھی ان کو سنیں ان کی محفل میں بیٹھیں تو اْٹھتے بیٹھتے اور بلاوجہ وہ عصری تعلیم کے بارے میں کیا کہتے ہیں پھر عصر ی علوم کے مراکز بارے ان کا خیال ہے کہ ان میں خلاف دین اور بے حیا ئی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہم جیسے لوگ تو مروت میں جیسے تیسے ان کو سنتے اور برداشت کرتے آ رہے ہیں، ہماری نئی نسل ایک تو ویسے بھی ان کے قریب نہیں اور جب وہ یہ سب کچھ سنے تو پھر میں نہیں سمجھتا کہ وہ ان اداروں کی مالی معاونت پر تیار ہوگی جہاں اس قسم کی سوچ پائی جاتی ہوگی کیا اس کے اثرات سے انکار کی گنجائش ہے میں نے بات بدلنے کو اس کا حل ہوچکا تو گویا ہوئے کہ یہ چندے والی بات تو بس برسبیل تذکرہ آ گئی اصل بات وہ دوری اور بعد ہے جو زیادہ خطرے کی بات ہے چندہ دینا نہ دینا اپنی جگہ اگر ہمارے دینی طبقے کا یہی رویہ رہا تویہ ایک بڑے خلیج کا باعث ہوگا نتیجتاً عام افراد کا یہ وسیع طبقہ دینی طبقے سے دور ہوتا جائے گا جس کے اثرات دین سے وابستہ افراد سے لیکر اداروں سبھی پر پڑے گا اور اس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا پڑے گا اس کے اثرات دنیا وآ خرت دونوں پر مرتب ہونگے، اس سے آ گے مجھ میں سننے کی تاب نہ تھی بزرگ رخصت ہو ئے تو میں سوچنے لگی کہ وہ کچھ غلط نہیں کہہ رہے تھے کوئی مبالغہ بھی نہیں تھا بار ہا علاقے کی مسجد کے لاؤ ڈ سپیکر پر میں نے اس طرح کے خیالات کا اظہار سنا ہے بچوں نے بھی ایک دو مرتبہ سوال پوچھا لیکن میں نے زیادہ توجہ نہیں دی لیکن بزرگ جو کہہ گئے وہ بچوں کا سوال نہیں تھا ایک ایسے متین شخص کے خیالات تھے جس کا اظہار انہوں نے پوری درد مند ی سے کیا پھر وہ ایک کامیاب پیشہ ورانہ زندگی کے دوران اور بعد ازاں دین کی خدمت اور مسجد کمیٹی کے رکن تھے ا ن کے خیالات سطحی نہیں بلکہ مشاہدات و تجربات کا نچوڑ تھے کیا کبھی ہمارے علمائے کرام نے سوچا ہے کہ آ نے والے وقت میں ان کو بدلتے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے رب کریم کی عطاء صرف علماء تک محدود نہیں اور نہ ہی اس کی ضمانت ہے یہ دنیا عالم اسباب کی دنیا ہے یہاں بدلتے حالات کا ادراک بھی ضروری ہے اور تدبر وتفکر و تدبیر بھی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے معاشی ومالی اعانت کا نکتہ ایک طرف کیا لوگوں کو متنفر کرنے کی بجائے حکمت و بصیرت سے ان کی اصلاح ہمارے علمائے کرام کی ذمّہ داری نہیں وہ دوریاں اختیار کریں گے اور مولوی پروفیشن تک خود کو محدود رکھیں گے تو دین کی اشاعت اور تحفظ کا فریضہ کیسے انجام پائے گا؟۔علما کا فرض بنتا ہے کہ وہ معاشرے کے خیالات سے خود کو باخبر رکھیں ا ن کی سوچ سے آ گاہی حاصل کرکے ا ن کے خیالات کا شافی جواب دیں جہاں خود اصلاحی اور خود احتسابی کی ضرورت ہو اس پر بھی ضرور غور کریں۔

مزید پڑھیں:  فلسطینی عوام کیلئے ایک تاریخی دن