حد سے زیادہ جوروستم خوشنما نہیں

مختلف الزامات اور مقدمات میںپابند سلاسل بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی کال پر تحریک انصاف کے کارکنوں نے لاہور’ کراچی ‘ پشاور سمیت مختلف علاقوںمیںریلیاںنکالنے کی کوشش کی تاہم پولیس نے کریک ڈائون کرتے ہوئے متعدد کارکنوں کو گرفتار کر لیا ۔ ملک کے دوسرے شہروںکی طرح صوبائی دارالحکومت پشاورمیں بھی تحریک انصاف کے چیئرمین کی کال پر کارکنوں نے پشاور کے کارکنوں نے ریلی نکالی جسے پولیس کی جانب سے روکنے کی کوشش کی گئی اس دوران پولیس اور کارکنوں کے مابین تلخ کلامی اور تکرار بھی ہوتی رہی جبکہ نعرہ بازی کرنے والے ایک درجن سے زائد کارکنوں کو حراست میں بھی لیا گیا ۔اتوار کے روزکارکنوں کو ریلیاں منعقد کرنے کی ہدایت پر کس شدت سے عملدرآمد کیاگیا اور کارکنوںکی تعداد پی ٹی آئی کے روایتی جلسوں اور ریلیوں کے مقابلے میں کم تھی یا برابر بہرحال پرجوش کارکن ملک بھر میں خوف کی فضاء کے باوجود نکلے اور اپنے جمہوری حق کا استعمال کیا جن کو پولیس کی جانب سے روکنے اور محدود کرنے کا عمل نہ صرف بلاجواز تھا بلکہ یہ اس آزادی کی بھی عملی نفی تھی جو ازروئے دستور سبھی کو حاصل ہے ۔ تحریک انصاف کو پہلے بطور جماعت انتخابی نشان کے ساتھ انتخابات میں حصہ نہ لینے دیا گیا بہرحال یہ چونکہ قانونی معاملہ اور عدالتی فیصلہ ہے اس لئے اسے تو قبول کیا جا سکتا ہے لیکن کارکنوں کی ریلی پر قدغن کاکوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا یقینا نو مئی کے واقعات کے بعد انتظامیہ اس حوالے سے حساس ہوگی لیکن دوسری جانب پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں نے بھی اس سے جو سبق سیکھا ہوگا اس کے بعد ان سے اس طرح کی توقع نہیں کہ وہ حد سے تجاوز کے مرتکب ہوں حد سے تجاوزکے خطرات اور ہجوم کو تحفظ دینے کے لئے پولیس کی تعیناتی ہونی چاہئے تھی مگر الٹا کارکنوں کو پرامن ریلی نکالنے سے روکنے کے لئے پولیس فورس کا استعمال کیاگیا جو نگران حکومت کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن ‘ عدلیہ اورخود پولیس فورس کے حوالے سے سوالات کاباعث ہے ۔ اس طرح کے اقدامات سے ملک میں من حیث المجموع سیاسی ماحول پر اثرات اور تنائو میں اضافہ ہوگا انتخابی ماحول میں رکاوٹوں سے صرف الیکشن مہم ہی متاثر نہ ہوگی بلکہ ٹرن آئوٹ پر بھی اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں شاید یہ غیر یقینی کی صورتحال ہی کی وجہ ہے کہ ملک کی بڑی بڑی جماعتیں انتخابات میں چند دن رہ جانے کے باوجود کوئی قابل ذکر بڑا جلسہ نہ کرسکیں پولیس کی جانب سے پوسٹر پھاڑنے اور ممکنہ حد تک سرکاری مشینری کابلاجواز مزاحم ہونا انتخابی عمل میں براہ راست مداخلت کے زمرے میں آتا ہے جس کا ا لیکشن کمیشن اور عدلیہ کو نوٹس لینا چاہئے ۔ اس طرح کی رکاوٹوں سے کبھی بھی مثبت نتائج کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔2024ء کے انتخابات میں جو نوجوان ووٹر پہلی مرتبہ ووٹ ڈالے گا ان تقریباًڈیڑھ کروڑ کے قریب افراد پراس طرح کے ماحول کاکیا اثر پڑے گا اور وہ ملک میں جمہوریت اور جمہوری عمل کے حوالے سے کیا تاثر قائم کریں گے یقینا وہ جوتاثر قائم کریں گے اس کے اثرات نہ صرف موجودہ بلکہ آمدہ کئی انتخابات بھی اس تاثر کے اثرات سے آزاد نہیں ہو پائیں گے ۔

مزید پڑھیں:  مہنگائی میں کمی کی اصل حقیقت