سابق صوبائی حکومتوں کی غفلت

صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت صوبے کے دیگر اضلاع میں سوئی گیس پریشر نہ ہونے کی ذمہ داری بلاکم وکاست گزشتہ تمام سابق صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ موجودہ نگران حکومت پرڈالنے میں کوئی عار نہیں ہے ‘ آئین کے 158 میں واضح طورپر درج ہے کہ ” جس صوبہ میں قدرتی گیس کا کوئی چشمہ واقع ہو ‘ اسے اس چشمہ سے ضروریات پوری کرنے کے سلسلے میں ان پابندیوں اور ذمہ داریوں کے تابع جویوم آغاز پر ناقد ہوں ‘ پاکستان کے دیگر حصوں پرترجیح ہوگی ‘ جبکہ آرٹیکل 161(1) میں درج ہے کہ قدرتی گیس کے (منبع) چشمہ پر عائد کردہ اوروفاقی حکومت کی طرف سے وصول کردہ وفاق محصول آبکاری کی اور وفاقی حکومت کی طرف سے وصول کردہ رائیلٹی کی اصل آمدنی ‘ وفاقی مجموعی فنڈ کاحصہ نہیں بنے گی اور وہ اس صوبہ کو جس میں قدرتی گیس کاچشمہ واقع ہو ادا کر دی جائے گی ”۔آئین میں اس تشریح کے باوجود صوبہ خیبر پختونخوا میں پیدا ہونے والی گیس پرپن بجلی کی طرح وفاق کنٹرول کرتے ہوئے صوبے کوگیس فراہمی سے جس طرح انکاری ہے اس حوالے سے سابقہ ایم ایم اے دور میں اس مسئلہ کو اجاگر کرنے کے باوجود آنے والی تمام حکومتیں اپناآئینی حق حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں ‘ اور اب ایک بار انتخابی میدان میں اتری ہوئی ہیں مگر کسی بھی صوبائی سطح یاقومی سطح کی جماعت خیبرپختونخوا کے جائز حق کے بارے میںزبان کھولتے ہوئے اس زیادتی پرایک لفظ نہیں کہہ رہی ہیں کیا خیبر پختونخوا کے عوام اپنی پن بجلی کے مقررہ کوٹے کے بعدگیس کے حق سے بھی اسی طرح محروم رہے گی؟۔

مزید پڑھیں:  مگر یہاں تو ظلم پر ہے احتجاج بھی غلط