اہل اور دیانتدار افراد کے چنائو کا وقت

اس وقت جس ماحول میں انتخابات ہور ہے ہیں اس غیر یقینی اور مساوی میدان دیئے بغیر انتخابات کی ملک کے اندر اور باہر کتنی وقعت ہوگی اس کا اندازہ مشکل نہیں اب تک تو مجھ سمیت ہر کوئی ملکی مسائل کے حل کی کنجی انتخابات کو قرار دیتے آئے ہیں اس رائے کا اظہار اپنی جگہ نیز علاوہ ازیں بھی کوئی راستہ نہ تھا لیکن جس طرح کی غیر یقینی کی صورتحال اب محسوس ہورہی ہے اس سے تو انتخابات کے بعد بھی خدا نخواستہ کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی بلکہ خدشات کے باعث صورتحال سامنے آ نے کا خدشہ ہے پارلیمان میں اگر وہی شور شرابہ کا ماحول بن جاتی ہے تو یہ اس قوم پر ظلم ہوگا بہر حال اب وقت کا ایک حصہ تو بیت چکا اب آ نے والے دنوں میں پارلیمان کے اندر ہی سے متصادم سیاست سے کنارہ کشی اور مفاہمت و ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کی ابتداء ہونی چاہئے سادہ اکثریت سے حکومت بنتی ہے یا مخلوط حزب اختلاف اور آ زاد اراکین کو دیوار سے لگانے کا روایتی طریقہ اختیار کرنے سے گریز کرتے ہوئے اچھی ابتداء کی سعی ہونی چاہئے حزب اختلاف کی بنچوں کو بھی ایوان کو بات بات پہ اور بلا وجہ مچھلی بازار بنانے سے گریز کرنا چاہیے اور حکومت و جمہوریت دونوں کو چلنے دیا جائے تبھی معاملات آ گے بڑھیں گے سیاست دانوں کی جانب سے مداخلت اور سول سپریمیسی نہ ہو نے کا رونا تو بہت رویا جاتا ہے معروضی حالات میں یہ بیجا بھی نہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کی راہ بھی خود سیاست دان ہی ہموار کرتے ہیں ایک کندھے سے اتارے گئے تو دوسرے دوڑ کر آ کر کندھا پیش کرتے ہیں جب تک یہ کیفیت رہے گی سول سپریمیسی کی توقع عبث ہی ہوگا سول سپریمیسی اور پارلیمان کی بالادستی عزیز ہے تو اس کی ابتدا شفاف انتخابات سے کرنی پڑے گی ہر سیاسی جماعت کو عوام سے اپنے حصے کی حمایت شفاف طریقے سے حاصل کرنی پڑیگی تب جاکر قبلہ سیدھا سمت سیدھی اور رخ درست ہوگا ابتدا اچھی ہوگی تو پھر آ گے چلنا آ سان ہوگا ورنہ تاریخ خود کو دہراتی رہے گی۔
اسٹیبلشمنٹ ہو کہ سیاست دان اب ہر کسی کو اس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ اب افادہ مختتم کو معاملات پہنچ چکے اب پیمانہ چھلکنے کو ہے اور ملکی معاملات اس کے متحمل نہیں ہو سکتے خرابی کی ایک حد ہوتی ہے جو اب آ خر ی حدوں میں ہے جو اب تک ہوتا رہا ہے نہیں ہونا چاہئے تھا مگر اس کا ادراک نہ کیا گیا کم ازکم اب مزید تو خرابی سے اجتناب کیا جائے اور قومی اصلاح کی کوشش ہونی چاہئے جو بھی سربراہ حکومت آ ئے ان کو چاہیے کہ حلف اٹھاتے ہی قومی مفاہمت کی دعوت دے کر جملہ فریقوں کو یکجا کرنے کا عمل شروع کرے اور قوم کی شیرازہ بندی کا بیڑا اٹھائے بلا شبہ ملک کے معاشی مسائل سنگین ہیں
معاشی مسائل کو مقدم رکھنے کا تقاضا ہی یہ ہے کہ اس کی ابتدا وسیع تر قومی مفاہمت سے ہو ملک میں بیرونی سرمایہ کاری اس وقت ہی ہوسکتی ہے جب ملک میں ہم آ ہنگی کی فضا ہو پالیسیوں کا تسلسل ہو اور ملکی وغیر ملکی سرمایہ کاری کو تحفظ حاصل ہو ملکی سطح پر مفاہمت قائم ہو اور صرف وہ سرمایہ ہی واپس آئے جسے خدشات کا شکار کاروباری و صنعتی برادری بیر ون ملک منتقل کر چکی ہو اس سے بڑھ کر افسوس کی بات کیا ہوگی کہ پاکستانی سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد نیپال اور اس جیسے دیگر چھوٹے بڑے ملکوں میں پراپرٹی میں بالخصوص اور دیگر شعبوں میں بالعموم سر مایہ کاری کرچکی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ملک کے وہ سیاسی حالات ہی ٹھہرتے ہیں جو گزشتہ سات آ ٹھ سالوں سے درپیش ہیں جو قدرتی طور پر پیش نہیں آ ئے بلکہ یہ ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں اب بھی ہم نے سبق نہ سیکھا تو شاید وقت ہی سکھا دے زمانہ والدین اور شفیق اساتذہ کی طرح سبق نہیں دیا کرتی اس کا سکھانے کا انداز بڑا بے رحم ہوتا ہے ۔
مگر ہم شاید اسی انتظار میں ہیں کہ بقول شاعر بڑے محتاط ہو تے جارہے ہو زمانہ نے سمجھا دیا کیا۔مگر ستم یہ ہے کہ ہم اگر زمانہ کی سننے والے ہوتے تو قیام بنگلہ دیش اور بنگالی قوم کی ترقی دیکھ کر اس سے ہی کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے مگر ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ اپنی اصلاح پر کبھی بھی توجہ نہیں دیں گے خواہ کچھ بھی ہو ہم نے اپنی روش نہیں بدلنی ہے قدرت نے سنبھلنے کا موقع ہم کوباربار دیا ہے شاید ہی کسی قوم کو اتنے مواقع ملے ہوں لیکن اس کے باوجود بھی ہم مائل بہ ا صلاح نہیں ۔ عام انتخابات کی صورت میں اصلاح کا ایک اور موقع ہمارے سامنے ہے ہم نے اس جماعت کو بھی آ زمایا اور اس جماعت کو بھی روٹی ‘کپڑا اور مکان سے لے کر تبدیلی تک کے نعروں سے متاثر ہوئے خود ہی سوچیں کیا کسی نے وعدے پورے کرنے کی کوشش کی یا پھر مایوس ہی کیا میرے خیال میں تو ہمیں مزید مشکلات کی دلدل میں دھکیل دیا گیا قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا اور آ ج عوام کی کمر ٹوٹ چکی ہے کسی کو احساس ہی نہیں کہ عوام پر کیا بیت رہی ہے حکمرانان وقت خواہ وہ جو اور جس جماعت کے تھے کسی کو بھی عوامی مشکلات کی طرف سنجیدگی سے توجہ اور عوام کو ان مشکلات سے نکالنے کی توفیق نہیں ہوئی مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والی صورتحال ہی رہی ایسے میں ہمیں سوچنا چاہئے کہ سبھی کو یکے بعد دیگرے موقع دے کر آ زما لیا لیکن ھیچ۔اب ایک مرتبہ پھر فیصلے کی گھڑی سامنے ہے تو ٹھہر کر سوچتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ آ زمائے کو آ زما نا جہالت قرار دیا گیا ہے تو کیوں نہ کوئی ایسی جماعت کے بارے میں سوچا جائے جسے ہمارے مسلسل نظر انداز کر نے کے باعث موقع نہیں ملا ہو میرے نزدیک جماعت اسلامی کو عوام نے کلی موقع کبھی نہیں دیا صرف جزوی موقع ملا ہے ایم ایم اے کی صوبائی حکومت میں جماعت اسلامی اگر ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتی تو اس کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ کہا جاسکتا تھا اس کے باوجود کرپشن سے اجتناب عوام کی بے لوث خدمت اور قومی خزانے کے بے دریغ استعمال سے گریز کی مثال دی جاسکتی ہے اس وقت کے وزیر خزانہ رات کو بس میں بیٹھ کر صبح لاہور میں اجلاس میں شریک ہوئے مزید سادگی و کفایت شعاری کی مثالیں تلاش کرنے پر مل سکتی ہیں کیا اس مرتبہ ہمیں کسی ایسی جماعت کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے جو عوام کی ہمدرد اور دیانتداری کے اصولوں کا خیال رکھنے والی جمہوری جماعت ہویاد رکھنے کی بات یہ ہے آ ج ہم جن مسائل کا شکار ہیں اس سے نکلنے کا راستہ بھی ہمیں خود بنانا ہوگا اور ایسا کرنے کے لئے ہمیں اس مرتبہ سیاسی وابستگی کی بجائے قومی مفاد میں فیصلہ کرنا ہوگا ایک ایسی قیادت لانے کی کوشش کرنی ہو گی جو مفاد پرست نہ ہو عوام میں سے ہو اور عوام کی مشکلات کا ادراک رکھتی ہو ایسا وہی لوگ کرسکتے ہیں جو خود متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوں اب آپ اپنے حلقے کے امیدوار وں کا جائزہ خود ہی لیں کہ کس جماعت نے متوسط طبقے کے افراد کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے اور کس جماعت نے روایتی سیاست سے ہٹ کر بڑے بڑے سرمایہ داروں کو نہیں عوام میں سے افراد کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے ظاہر ہے سرمایہ دار جب دولت کے بل بوتے پر کامیاب ہوگا وہ اپنا وہ سرمایہ سب سے پہلے نکالنے کی جستجو میں لگے گا جو اس نے انتخابات کے موقع پر لگا یا ہوگا پھر کاروبار ی مفادات کا حصول ان کی ترجیح ہوگی عوام کی باری آ ے گی ہی نہیں ۔عام انتخابات کی صورت میں ایک مرتبہ پھر بال عوام کی کورٹ میں ہے کہ انہوں نے آزمائے ہوئوں کو آزمانا ہے گروہی اور تعصبات کا شکار ہونا ہے یا پھر خوب سوچ سمجھ کر ماضی و حال کا جائزہ لیتے ہوئے پورے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے نمائندے چننا ہے معروضی صورتحال میں کسی سے بھی معجزے اور کرامات کی توقع نہیں رکھی جا سکتی اس کی توقع بھی نہ رکھی جائے یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی بھی معیار پر پورا نہ اترے سبھی ایک جیسے بھی لگیں تب بھی جس میں کمتر برائی لگے ان کو چنا جائے جان بوجھ کر تعصب اور مفادات کی پٹی آنکھوں پر باندھنے سے کمتر برائی کا چنائو بھی بہتر ہے اگر یہ بھی نہ کر سکیں تو آئندہ پانچ سال کے لئے مزید سخت حالات کے لئے خود کو تیار رکھیں اور بس۔

مزید پڑھیں:  پراسرار آتشزدگی