صرف سیاسی نہیں معاشی چیلنج بھی درپیش ہے

پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے تحت حاصل کردہ 3 ارب ڈالر قرضے کی ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی آخری قسط کے لئے نو منتخب حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات آئندہ ماہ کے پہلے عشر ے میں متوقع ہیں۔ وزارت خزانہ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری اسٹینڈ بائی پروگرام 12 اپریل کو ختم ہو رہا ہے اس پروگرام کے تحت پاکستان آئی ایم ایف سے اب تک ایک ارب نوے کروڑ ڈالر وصول کر چکا ہے جبکہ ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی آخری قسط باقی ہے جس کے لئے دوسرے اقتصادی جائزے پر رواں ماہ کے آخری ہفتے مذاکرات متوقع تھے۔ پاکستان میں چونکہ عام انتخابات کے باعث اب نئی حکومت بننے جارہی ہے اس لئے زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ دوسرے اقتصادی جائزے پر مذاکرات مارچ کے پہلے عشر ے میں ہوں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی بھی کوشش ہے کہ وہ آخری قسط کیلئے دوسرے اقتصادی جائزے پر مذاکرات نئی منتخب حکومت کے ساتھ کرے اور توقع ہے کہ آئی ایم ایف کا وفد نئی حکومت کے قیام کے بعد رواں ماہ کے آخری ہفتے یا مارچ کے شروع میں پاکستان کے دورے پر آئے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نگران حکومت نے آئی ایم ایف کے تمام اہداف حاصل کر لئے ہیں، نگران حکومت کی کارکردگی کی وجہ سے منتخب حکومت کو بات چیت میں آسانی ہوگی۔پاکستان کو بہت بڑے معاشی چیلنجز کا سامنا ہے ادائیگیوں کے کمزور توازن’ کمزور ہوتی ہوئی نمو’ اور بڑھتی ہوئی قیمتوں سے اس کا واضح طور پر اظہار ہوتاہے۔ توقع ہے کہ نئی حکومت ان مسائل سے جلد نمٹنے کے لئے تیار ہو جائے گی۔اس کا سب سے بڑا چیلنج پاکستان کے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے ایک طویل المدتی فنانسنگ پلان بنانا ہے، جس کا آغاز طویل اور بڑے آئی ایم ایف بیل آئوٹ کے لئے بات چیت سے ہو گا کیونکہ موجودہ تین بیلین ڈالر کا پیکیج اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔اسلام آباد کی دیگر تجارتی، دو طرفہ اور کثیر جہتی قرض دہندگان سے قرضوں اور سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کی صلاحیت آئی ایم ایف پیکج کے بغیر محدود ہو جائے گی۔ ڈیفالٹ کے امکان سے بچنے کے لئے بھی فنڈ کا تعاون درکار ہے۔ اس طرح کی حمایت کے باوجود، سیاسی طور پر غیر مقبول اصلاحات کو نافذ کرنے کے لئے حکومت کی رضامندی اور اہلیت کا امتحان لیا جائے گا۔عام انتخابات سے ملک میں عدم استحکام کم ہونا چاہئے تھا۔ تاہم غیر متوقع نتائج نے غیر یقینی صورتحال کو مزید تیز کر دیا ہے، جو معاشی استحکام اور ساختی اصلاحات پر عمل درآمد کی کوششوں کو متاثر کر سکتا ہے۔امر واقع یہ ہے کہ مشکل فیصلے لینے کے معاملے میں آخری حکمران اتحاد کا قابل رشک ٹریک ریکارڈ نہیں تھا۔انتخابات میں بھی اس کمزوری کا ووٹر نے اثر لیا پی ڈی ایم مخلوط حکومت نے جس طرح معیشت کو خراب کیا وہ سب کو معلوم ہے۔ بدانتظامی کی قیمت اب عوام ادا کر رہے ہیںایسے میں یہ تاثر بلاوجہ نہیں کہ ایک کمزورمخلوط حکومت پاکستان کی معاشی اصلاحات کے امکانات کو کم کر دے گی لہذا اسے پائیدار ترقی حاصل کرنے کے قابل ہونے کی اشد ضرورت ہے۔پارلیمنٹ میں ایک مضبوط اور شور مچانے والی اپوزیشن کی موجودگی مطلوبہ قانون سازی میں بھی رکاوٹ بن سکتی ہے، کیونکہ پی ٹی آئی اپنے حریفوں کے ذریعے حکومت کی قانونی حیثیت کو قبول کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ انتخابات کے بعد منقسم مینڈیٹ کی وجہ سے معیشت کا مستقبل کافی غیر یقینی دکھائی دیتا ہے۔انتخابات کے بعد جس طرح کی صورتحال بنی ہے اس میںملک میں مستحکم حکومت کا قیام توویسے بھی ممکن نظر نہیں آتافارمولہ سازی کے ذریعے بھی کوئی حکومت بنے تواس کے کمزور ہونے کی ابھی سے پیشگوئی مشکل نہیں ایسے میں مناسب یہی ہوگا کہ سیاسی تقطیب کے خاتمے پر مبنی کوئی ایسا فارمولہ وضع کیاجائے جوسب کے لئے بادل نخواستہ ہی سہی قابل قبول ہوسیاسی بعد کی کیفیت کاخاتمہ ہو اور خواہ جس اتحاد کی بھی حکومت بنے حزب اختلاف اسے تسلیم کرنے پرآمادہ ہو اور جمہوری عمل متاثر نہ ہواس طرح کی حکومت کے قیام کے بعد ہی معاشی چیلنجوں سے نمٹنے اور عالمی مالیاتی ادارے سے معاملت ہوسکے گی بصورت دیگر نہ صرف حکومت بلکہ ملک و قوم کو بھی مزید مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے جس سے بچنے کی حتی المقدور سعی کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  مگر یہاں تو ظلم پر ہے احتجاج بھی غلط