انتخابی نتائج تنازعہ

انتخابی نتائج میں تبدیلی کا تنازعہ

آلودگی ‘ ملاوٹ اور دھوکہ ہمارے معاشرے میں کچھ اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ اسے معاشرے سے الگ کرنا ممکن نظرنہیں آتا کجا کہ اس کا علاج کیا جائے اور اس پر قابو پایا جائے معاشرے کے ہر ہر حصے میں جس طرح کی آلودگی نظر آتی ہے گویا وہ آلودگی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا حقیقی چہرہ ہو ۔ یہ آلودگی و ملاوٹ و جعلسازی ہی ہے جو ہمیں کہیں کا نہیں رکھا اوریہی صورتحال رہی تو خدانخواستہ ہم کہیں کے نہیں رہیں گے ان دنوں چونکہ تازہ تازہ انتخابات ہو چکے ہیں اگرچہ انتخابات پرامن اور دھاندلی کے بغیر ہوئے ماضی کے تمام حربوں کی ناکامی کے باعث اسے اپنا نا ممکن نہیں تھا اور وہ ہوتے بھی انفرادی سطح اور نوعیت کے تھے اس طرح کی چالیں چلنے سے کامیابی کا امکان بھی کم سے کم ہوتا ہے اور جھنجھٹ کے کام تھے سو جان جوکھوں میں ڈالنے کی بجائے سیدھا سیدھا ووٹوں کو مبینہ طور پر ادھر سے ادھر کرکے کامیاب کو ناکام اور ناکام کوکامیاب کرنے کا منظم حربہ اختیار کیا گیا کرنے والوں کے لئے ایسا کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا جب آپ کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ ہو اور آپ مختار و طاقتور ہوں تو پھر ذرا سمجھدار بچہ بھی ہندسے لکھ سکتا ہے ایسا ہی کرکے انتخابات کو بچوں کا کھیل بنا دیا گیا کتنے منظر آپ نے بھی دیکھے ہوں گے اور ایسا کرنے والے بھی نامعلوم نہیں بلکہ نامعلوم پوری طرح سامنے آکر شناخت کے ساتھ سب کی آنکھوں کے سامنے وہ کچھ کر گئے کہ آج پوری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے عوام کی رائے کا اندازہ تو پہلے ہی ہوگیا تھا ان کے رائے کی پرچی گن گن کر جن عہدیداروں نے احتیاط سے رکھے تھے اور متعلقہ پولنگ ایجنٹس سے دستخط بھی لئے تھے کہ گواہ رہے ہم نے امانتداری سے کام مکمل کرکے اگلوں کے حوالے کیا اب اگلے جانیں اور آپ جانیں ۔ اب جھگڑا ہی اگلوں اورپچھلوں کا ہے ۔1977ء میں تواتنا کچھ نہ ہوا تھا مگر عوام جب نکل آئی تو ان کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیاالبتہ 1971ء میں اس طرح کے عمل کی بڑی بھاری قیمت چکائی گئی مگرلگتا ہے کہ کسی کو احساس ہی نہیں اور نہ ہی کسی کو پرواہ ورنہ عوام کی رائے کی اکثریت کا کوئی احترام ہے۔ ہمیں اس سے غرض نہیں ہونا چاہئے کہ سیاسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں کس کی حکومت بنتی ہے ظاہر ہے جن لوگوں نے خود کو اتنا غیر لچکدار اور ناقابل قبول بنایا ہو اور من مانی کرنے والے ہوں سیاست میں اقتدار ان کے حصے میں مشکل سے ہی آتا ہے اس کے باوجود خیبر پختونخوا میں تاریخ میں تیسری مرتبہ عوام نے ان پر پہلے دونوں انتخابات سے بڑھ کر اعتماد کا اظہار کیا ان کی مقبولیت میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا یہ اپنی جگہ مگر انہوںنے خود کو اپنے ہاتھوں جس کنارے لگایا ہے وہاں سے اقتدار کی راہداریاں ڈھونڈنا آسان نہیں اور وہ بھی ایسے جغادری افراد کے ہوتے ہوئے جو فرزین سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ کے مماثل ہوں یہ خامی اپنی جگہ اصل بات عوام کے مینڈیٹ میں زبردستی کی تبدیلی کا ہے کسی کو کسی نے یہ حق نہیں دیا کہ وہ عوام کے جذبات سے کھیلے ۔ خیبرپختونخوا کے عوام کو جب (بعض ہی کو سہی) دوران انتخابی ہم آپ نے ”بے وقوف” ٹھہراہی دیا تھا تو پھر ان سے توقع بھی نہیں رکھنا چاہئے تھا شاید یہ الفاظ اس مایوسی کا اظہار تھے جو نوشتہ دیوار پڑھ کر زبان پر آئے کہ خیبر پختونخوا میں اپنی دال نہیں گلنی لیکن جہاں ”دال خوری” ہوتی ہے وہاں کی بھی دال کالے کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی خود اپنے گھر اور حلقے میں کیا صورتحال رہی کیا خیبر پختونخوا کے عوام کی طرح یہ بھی ”بے وقوف” تو نہیں بن گئے تھے ورنہ ان کا فیصلہ وہ نہ ہوتا جسے تبدیل کرنے کی جتن کی گئی خیر بات دوسری طرف نکل گئی بات آلودگی کی ہو رہی تھی آلودہ سیاست میں بھی ہمیں ہی کمال حاصل ہے چھانگا مانگا ہارس ٹریڈنگ کی سیاست اصطبل کے اصطبل خریدنا بدترین سیاسی آلودگی کے مظاہرے ہیں مگر جب بات اس سے آگے نکل گئی تو سب جغادری ایک ہو گئے اس پربھی بات نہ بنی تو مقتدرہ بھی مدد کو آگئی مگر بات اس وقت ہی بنے گی جب اس ملک میں جمہوری اقدار کا خیال رکھنے کا آغازہو گا۔اس وقت کا مرحلہ گزر چکا اب انتخابی دھاندلی اورانتخابی عذرداریوں کے بھی فیصلے ہوںگے اور نئی حکومتوں کا قیام عمل میں آئے گا ۔ خیبر پختونخواکے عوام نے اپنی حکومت کے قیام کاواضح اور بھر پور فیصلہ سنا دیا ہے پنجاب اور سندھ میں بھی حکومت سازی مشکل نظر نہیں آتی بلوچستان میںبھی جیسے تیسے حکومت بن جائے گی وفاق میں مشکلات کے باوجود بہرحال حکومت بن ہی جائے گی۔ نئی حکومتیں جس قسم کے سیاسی ومعاشی حالات میں آرہی ہیں وہ کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں یہ حالات اس قدر مشکل ہیں کہ جب تک ملک میں قومی ہم آہنگی نہ ہوکسی بھی سیاسی جماعت اور اتحاد کی حکومت ان مسائل سے پوری طرح نمٹنے کی پوزیشن میں نہیں ہوسکتی ملک میں حزب اختلاف و عوام سبھی کی جانب سے مطمئن یکسو حکومت ہی اس طرح کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکے گی جس کا تقاضا ہے کہ انتخابات کی تلخیوں اورانتقام کی سیاست کواب ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جائے اور مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیا جائے جس کی ذمہ داری جیتنے والی جماعت اور آئندہ کے منتخب وزیر اعظم پرعائد ہوتی ہے ملک میں ہم آہنگی اور کسی حد تک سیاسی اتفاق رائے کی اس وقت جس قدر ضرورت ہے اس سے زیادہ واضح ضرورت کبھی نہیں تھی سیاست اور معاشرے میں انتشار کی لہریں پھیلتی اور وسیع ہوتی جارہی ہیں معاشرے میں انتشار ہے اور اس کے اثرات سے معیشت بھی محفوظ نہیں پاکستان میں سیاسی انتشار اقتدار کی کشمکش اور اپنے سیاسی کرداروں میں خلیج گہری ہوتی جارہی ہے ۔ اب اسے جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک شفا بخش رابطے کی ہے کیونکہ سیاسی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہی پائیدار ترقی قومی ہم آہنگی اور سماجی اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کرسکتا ہے ملکی مفاد کاتقاضا ہے کہ سیاسی خطوط پرامن قائم کرنے اور منقسم لوگوں کو اکٹھا کرنے کی کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کیا جائے ہم پہلے ہی اس طرح کے حالات کے ہاتھوں تشدد اور جمہوری مستقبل کے لئے خطرات کا تجربہ کرچکے ہیںیہ کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے اس کے لئے سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے جومفاہمانہ فضا میں صورتحال سے نکلنے کا فارمولہ طے کریںسیاسی جماعتوں کویاد رکھنا چاہئے کہ انکا کام محض انتخابات میں کامیابی اور اقتدار کا حصول ہی نہیں اس قوم کودلدل سے نکالنا بھی ان کی ذمہ داری ہے یہ صرف ایک ایسے ماحول میں ہوسکتا ہے جب ملک کو درپیش تمام معاملات پر کھل کر اور نیک نیتی سے بات چیت کی جائے ملکی تعمیر و ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ایسے نکات تیار کئے جائیں جن پر قومی اتفاق ہو۔ اس میں سب سے پہلے اور سب اہم آئین پر قائم رہنے کا معاہدہ مقدم ہو نیزمیثاق معیشت کی طرف بھی بڑھنے کی ضرورت ہے مختلف سیاسی گروہوں کے حامیوں کے درمیان دشمنی کی فضا سے اب نکلنے کی ضرورت ہے ۔ ہم سب کو سمجھنا چاہیے کہ یہ فوری طور پر نہیں ہو سکتا۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے نہ صرف سیاسی رہنمائوں بلکہ سماجی کارکنوں، کمیونٹی رہنمائوں اور اثر و رسوخ والے دیگر افراد کی کوششوں کی بھی ضرورت ہوگی۔ جمہوری اداروں کو ان کی آزادی، شفافیت اور تاثیر کو یقینی بنا کر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں طاقت کے ارتکاز کو روکنے اور احتساب کو فروغ دینے کے لیے عدلیہ، انتخابی عمل اور پارلیمانی نگرانی کو مضبوط بنانا بھی شامل ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی ایسا قدم جو سیاسی جماعتوں کو تعمیری بات چیت اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔اسے اختیار کیا جانا چاہئے تاکہ معاملات کو آگے بڑھانے اور ملکی مسائل کے حل کی کوئی راہ نکل آئے۔ جامع پالیسی سازی اور تصادم کی سیاست سے گریز بہتر حکمرانی اور استحکام کا باعث بنے گا۔ امید ہے کہ تمام پارٹیاں اس بات کو سمجھیں گی کہ سیاست ممکن ہونے کا فن ہے۔

مزید پڑھیں:  فلسطینی عوام کیلئے ایک تاریخی دن