توانائی کی قیمتوں میں بڑا اضافہ

شدید بحران اور مسلسل تعطل کے باوجود سوئی ناردرن گیس پائپ لائن نے گھریلو صارفین کیلئے نئی قیمتوں کے تناسب سے مجوزہ سلیب تیارکر لیاہے جس کے مطابق گھریلو صا رفین کیلئے گیس کی ماہانہ قیمتوں میں5سے 66.67فیصدتک اضافہ ہوجائے گادریںاثناء دم رخصت نگران حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ نے نوٹی فکیشن جاری کر دیا، پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق کردیا گیا ہے ۔تمام زمروں کے صارفین سے اضافی 242 ارب روپے کی وصولی کے لیے گیس کی قیمتوں میں 45 فیصد تک اضافہ کرکے، نگراں حکومت نے 3 بلین ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کا ایک اور ہدف پورا کر لیا ہے۔ یہ عمل آئی ایم ایف کی شرط پر عمل درآمد کی آخری تاریخ پر کی گئی ہے۔ اس فیصلے کا اہم حصہ نقدی سے مالا مال کھاد کمپنیوں کے لیے گیس کے یکساں نرخوں کی منظوری ہے، جس سے بڑی حد تک ان کی طرف سے کئی دہائیوں سے جانے والی سبسڈی کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ تاہم، طاقتور ٹیکسٹائل انڈسٹری پھر سے وزیر توانائی کی طرف سے پہلے ہی بہت زیادہ سبسڈی والے کیپٹو پاور کے لیے تجویز کردہ بہت کم اضافے کے ساتھ دور ہو گئی جلد ہی اقتدار سنبھالنے والی نئی حکومت قوم کے مالیات کو گرنے سے روکنے اور ممکنہ خودمختار ڈیفالٹ کو روکنے کے لیے ایک اور طویل، بڑے آئی ایم ایف بیل آئوٹ پر بات چیت کرنے پر مجبور ہو گی۔ دو سرکاری گیس فرموں کے کیش فلو کو بہتر بنانے اور گیس سیکٹر میں گردشی قرضے میں اضافے کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ایندھن کے فضول استعمال کی حوصلہ شکنی کرنا بھی بہت ضروری تھا۔ گیس کی اونچی قیمتیں نہ صرف عام آدمی پر مزید بوجھ ڈالیں گی جو زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں پھنسے ہوئے ہیں، بلکہ اس سے خوراک اور دیگر قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، اور مالیاتی نرمی میں تاخیر ہو سکتی ہے۔جب تک حکام توانائی کے شعبے میں بنیادی ڈھانچہ جاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اصلاحات نہیں کریں گے تاکہ اس طرح کے متواتر جھٹکوں سے بچا جا سکے، قیمتوں میں استحکام نہ ہونے کے برابر رہے گا۔
طرز احتجاج طے کرنے کی نظیر قائم کرنے کی ضرورت
پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی جانب سے انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کے دوران پشاور کی شاہراہوں کی بندش پر معذرت مثبت امر ہے لیکن وہ چاہتے تو اس ے با آسانی گریز ممکن تھا ہم نے انہی کالموں میں ان کوصوبائی دارالحکومت پشاور کو بالخصوص اور خیبر پختونخوا کے عوام کو بالعموم اس طرح کے اقدامات سے زچ کرنے سے گریز کا مشورہ بھی دیا تھا بہرحال اب بھی بروقت احساس احسن امر ہے ان کا کہنا ہے کہ آئندہ اس طرح کے احتجاج سے گریز کیا جائے گا۔ ہم سیاسی لوگ ہیں غلطیوں سے سیکھتے ہیں ۔خیبر پختونخوا میں بھر پور کامیابی کے باوجود بھی اسی صوبے کو مرکز ہنگامہ آرائی بنانا قہر درویش برجان درویش کے مصداق ہی شمارہو گا اور اس سے کسی ایوان میں لرزہ طاری نہ ہوگا بلکہ صوبے کے عوام ہی کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا تحریک انصاف کو اپنا یہ جمہوری حق ضرور استعمال کرنا چاہئے مگر سڑکیں بند کرکے نہیں بلکہ کسی کھلے میدان میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا انعقاد کرکے پیغام دیا جائے تو اس سے صوبے کے عوام بھی نالاں نہ ہوں گے اور متعلقہ حلقوں کو بھی پیغام جائے گا۔تحریک انصاف جس کی صوبے میں حکومت بننے جارہی ہے اگر اس کے رہنماء احتجاج کوعوام کے لئے مشکلات کا ذریعہ بنانے سے گریز کرتے ہوئے کسی کھلی جگہ پر احتجاج ریکارڈ کرانے کی نظیر قائم کریں گے تو آنے والے دنوں میں دیگر احتجاجیوں کو بھی ایسا کرنے کا پابند بنانے کی راہ ہموار ہو گی جو آئندہ کی حکومت اور عوام دونوں کے مفاد میں ہوگا۔

مزید پڑھیں:  یقین نہیں آتا