تاریخی مغالطہ دور کرنے والی نادرکتاب

Revisiting the Durand Line: Historical and Legal Perspectives
کے نام سے شائع ہونے والی کتاب کی پچھلے دنوں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ سیاسیات و بین الاقو امی تعلقات میں تقر یب رونمائی ہوئی۔ انگریزی زبان میں تحریر یہ کتاب پاکستان-افغانستان کی سرحد جسے عرف عام میں ڈ یو رنڈ لائن کہا جاتا ہے سے متعلق ہے۔ اس کتاب میں تاریخی اسناد اور بین الاقوامی قانون کے ٹھوس ثبوتوں کا حوالہ دیکر معاہدہ ڈیورنڈ کے اصل حقیقت آشکارا کیا گیا ہے۔اس موقع پر کئی اہم شخصیات نے تقریب سے خطاب کیا جن کے خطاب کاخلاصہ یہ ہے کہ معاہدہ ڈیورنڈ کو اکثر و بیشتر توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا رہا ہے جس سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے آئے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طور پر حل کرنا چاہئے۔
افغانستان تاریخ اور زبان کا بہانہ بنا کر پاکستان کی کچھ علاقوں پر دعوی کرتا آیا ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو نہیں دیکھتا کہ خود موجودہ افغانستان پر مغلوں نے طویل عرصے تک حکومت کی ہے۔ ایرانیوں نے بھی اس علاقے پر حکومت کی ہے۔ کیا مغلوں اور ایران کو افغانستان پر دوبارہ قبضہ کرنے کا حق حاصل ہے؟ بالکل نہیں۔ اس طرح کابل کے لئے بھی یہ منا سب نہیں ہے کہ ان علاقوں پر اپنا حق جتائے جس پر ماضی میں احمد شاہ ابدالی اور انکے جانشینوں نے کئی دھایئوں تک حکمرانی کی تھی۔
مصنف ڈاکٹر لطف الرحمان کے مطابق یہ کتاب تقربیاً دو دھایئوں کی تحقیق پرمبنی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں سب سے مشکل کام معاہدہ ڈیورنڈ سے متعلق تاریخی دستاویزات کی دستیابی اور حصول تھا جو مختلف آرکائیوز میں گر د و غبار سے اٹے ہوئے فائلوں میں گمشدہ پڑے تھے۔ اس کتاب کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں پہلی بار وہ پانچ نقشے چھاپ دئیے گئے ہیں جن پر معاہدہ ڈیورنڈ پر دستخط کے موقع پر بحث کی گئی تھی۔ اس سے پہلے زیادہ تر محقیقن ان نقشوں کے بارے میں لا علم تھے اور مختلف مفروضوں پر یقین رکھتے تھے۔ مثلاً ایک امریکی پروفیسر لوئس ڈپوری کا کہنا ہے کہ ایک چھوٹے سے نقشے کا معاہدے کے وقت تبادلہ ہو ا تھا اور اس میں سرحد واضح نظر نہیں آتا ہے۔ پروفیسر حسن کاکڑ کا بھی یہی خیال تھا۔ لیکن اس کتاب نے ان دونوں محقیقن کے نظریے کو غلط ثابت کر دیا۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی ، افغان فوج کے سابق سربراہ شیر احمد کریمی اور صوبہ خیبر پختون خوا کے سابق گورنر کمانڈر خلیل الرحمان کا کہنا ہے کہ معاہدہ ڈیورنڈ صرف ایک صدی کے لئے تھی اور یہ نومبر 1993میں اختتام پذیر ہوا۔ یہ ایک صدی کا شوشہ دراصل بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر ڈبلیو ۔پی۔ ایس۔ سیدو نے پیش کیا تھا اور بہت سارے لوگوں نے بغیر تحقیق کے اسے قبول کیا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاہد ہ ڈیورنڈ ایک خاص عرصے کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ ایک دایمء معاہد ہ ہے۔ اس کے شق نمبر2میں درج ہے کہ فریقین مجوزہ سرحد کے آر پار”کبھی بھی”مداخلت نہیں کر ینگے۔ بین الاقوامی قانون کہتا ہے کہ جب بھی اس معاہدے کے بارے میں شک و شبہات پیدا ہوجائے تو معاہدے کی عبارت کو پڑھ لینا چاہے ۔ ڈیورنڈ معاہد ے میں سرے سے ایک صدی کا ذکر نہیں ہے۔ یہ صرف چند افراد کی ذہن کی پیداوارہے۔ کتاب میں پاکستان اور افغانستان کی موجودہ سرحد کی حد بندی پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ بعض مورخین نے یہ دعوی کیا ہے کہ اس سرحد کی حد بندی نہیں کی گئی تھی جو کہ سراسر جھوٹ اور کم علمی کا نتیجہ ہے۔دستاویزی حقیقت یہ ہے اس سرحد کی حد بندی کی غرض سے تین خصوصی کمیشن تشکیل دی گئیں تھیں۔ جن میں اسمار بائونڈری کمیشن، وزیرستان-افغان بائونڈری کمیشن اور بلوچ – افغان بائونڈری کمیشن شامل ہیں۔
اسمار بائونڈری کمیشن میں افغانستان کی نمائندگی افغان فوج کے ا س وقت کے سربراہ جنرل غلام حیدر خان جبکہ برطانوی حکومت ہند کی نمائندگی پشاور ڈویژن کے کمشنر رچرڈ ادنی کر رہے تھے۔ رچرڈ ادنی نے عمراخان اف جندول کو خط لکھا کہ دیر اور افغانستان کے درمیان سرحد کے تعین کی غرض سے یا تو خود موقع پر حاضر ہوں اور یا اپنا نمائندہ وہاں روانہ کریں۔ لیکن عمرا خان نے ایسا نہیں کیا کیونکہ معاہدہ ڈیورنڈ کے تحت اسمار پر افغانستان کے قبضے کو تسلیم کر نے پروہ انگریزوں سے ناراض تھے۔ عمراخان کی غیر موجودگی سے غلام حیدر خان نے خوب فائدہ اٹھایا۔ معاہدہ ڈیورنڈ کے مطابق، کونڑ میں افغانستان کی سرحد چانک یعنی بانڈہ طوطی شیخ سے شروع ہوگی ۔ غلام حیدر خان نے درہ نصرت، بیر کوٹ اور بشگال وادی پر دعوی کیا۔ شروع میں رچرڈ ادنی نے اس دعوی کو رد کیا لیکن گلگت کے پولیٹکل افیسر جارج رابرٹسن کے کہنے پر انہوں نے یہ تمام علاقے افغانستان کے حوالے کئے ۔ جارج رابرٹسن کا خیال تھا کہ چونکہ افغانستان دیر اور چترال کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور تھا اسلئے یہ علاقے انھیں دینا چاہے تاکہ مستقبل میں مشکلات نہ ہوں۔ رچرڈ ادنی نے مجموعی طور پر 120 میل لمبا اور 75 میل چوڑا علاقہ افغانستا ن کو دے دیا اور اسے ایک دوستانہ رعایت کا نام دیا گیا۔ یہ معاہدہ ڈیورنڈ کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔
رچرڈ ادنی اور غلام حیدر خان نے معاہدہ نشاگام پر9اپریل 1895 (13 شوال 1312) کو دستخط کئے ۔ اس کے چند ماہ بعد افغان فوج نے بشگال پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ اس سے پہلے یہ علاقہ صدیوں سے چترال کا حصہ تھا اور انگریز افسران مھتر چترال سے اجازت لیکر اس علاقے کا دورہ کر تے تھے۔ افغانستان نے بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے نورستان رکھ دیا۔ اسمار باونڈری کمیشن اپنا کام مکمل نہیں کرسکا کیونکہ غلام حیدر خان نے مھمند پر بھی دعویٰ کر لیا لیکن رچرڈ ادنی مزید رعایت دینے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ اس لئے بات چیت تعطل کا شکار ہوا۔مہمند کے علاقہ پلوسئی سے کرم کے سیکرم پہاڑ کے درمیان سرحد کی حد بندی تیسری افغان-برطانوی جنگ (1919) کے بعد کی گئی۔
وزیرستان باونڈری کمیشن نے مشکلات کے باوجود اپنا کام کامیابی سے مکمل کر لیا۔ وزیر ستان میں انگر یزوں پر ملا پاوندہ کے لشکر نے حملہ کر دیا جس میں دوسروں کے علاوہ پیڈرک میکالی بھی مارے گئے ۔ یاد رہے کہ اس شخص نے ڈیورنڈ لائن کے تمام پانچ نقشے بنائے تھے۔
1916 میں افغان فوجیوں نے چترال کے علاقہ ڈوکیلم پر قبضہ کر لیا۔ مھتر چترال شاہ الملک نے اس کو بزور شمشیر دوبارہ واپس لینے کی کوشش کی لیکن انگریزوں نے ا نھیں ایسا کرنے سے منع کیا۔16سال بعد حکومت ہند اور افغانستان کے درمیان ایک معاہد ہ ہو ا جس کے روسے ڈوکلیم کو افغانستان کا حصہ تسلیم کیا گیا۔ یہ معاہد ہ لیگ اف نیشن کے ساتھ رجسٹرڈ کیا گیا۔
معاہدہ ڈیورنڈ کے تحت وادی وا خان کو بھی افغانستان کے حوالہ کیا گیا۔ اگرچہ امیر عبد الرحمان اس دور افتادہ علاقے کو افغانستان میں شامل کر نے کیلئے تیار نہیں تھے لیکن مارٹمر ڈیورنڈ کے بار بار اصرار اور اس وعدے کے بعد راضی ہوئے کہ وا خان کے انتظام کو بہتر انداز میں چلانے کی غرض سے انگریز اسے سالانہ پچاس ہزار روپے دیں گے۔ وا خان کے حکمران علی مردان شاہ گلگت بلتستان کے ضلع عذر کے علاقے اشکومن منتقل ہو ئے اور انگریزوں نے ان کو دس دیہات کا عشر اور سالانہ نقد امداد دینے کا اعلان کیا۔ بعد میں پامیر بائونڈری کمیشن نے وا خان میں روس اور افغانستان کی سرحد کی حد بندی کی۔ روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد شمالی وا خان تاجکستان کے قبضہ میں چلا گیا۔
معاہدہ ڈیوڑنڈ کی قانونی حیثیت مسلم ہے۔ بین الاقومی عدالت انصاف نے اس قسم کی متعدد د مقدمات میں فیصلے دیے ہیں۔ عدالت نے 1986میں افریقی ممالک مالی اور بور کینافاسو کے درمیان سرحدی تنازعہ کے بارے میں فیصلہ دیا ۔ اس فیصلے میں یہ بات نوٹ کی گئی ہے ”کہ نوآبادیاتی سرحدوں کو تبدیل نہیں کیا جاسکتاہے ۔” لیبیا اور چاڈ کے درمیان بھی اس طرح کا تنازعہ تھا اور فریقین نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا۔ عدالت نے 3 فروری 1994 کو فیصلہ سناتے ہو اعلان کیا کہ جب کسی معاہدے کی روسے سرحد کا تعین کیا جائے تو سرحد مستقل ہو جاتا ہے اور اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ اس طرح ینکار گوہ اور ہونڈوراس کے سرحدی جھگڑے کا فیصلہ بھی عالمی عدالت انصاف نے اکتوبر 2007 میں اس اصول کے تحت کیا۔
معاہد ے ڈیونڈ کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ 1969کے ویانہ کنونشن کے آرٹیکل 62 کے شق نمبر 2(اے)کہتا ہے کہ ہر وہ معاہدہ جو کہ سرحد کا تعین کر تا ہو اسے یکطرفہ ختم نہیں کیاجا سکتا ۔
اس کتاب کے بارے میں حال ہی میں افغانستان میں ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا اور ماہرین نے اس کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی۔ چونکہ اس کتاب کو تاریخی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے اس لئے تاریخ، جغرافیہ ، پولیٹکل سائنس اور بین الاقو امی سیاسیات کے طالب علموں کو اس کا ضرور مطالعہ کر نا چاہئے۔ اس کتاب کو ملک کی ہر لائبریبری میں رکھنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کر سکیں۔

مزید پڑھیں:  پراسرار آتشزدگی