صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس، چیف جسٹس آئی جی پر برہم

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران آئی جی اسلام آباد پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک کرائم کی ریکارڈنگ موجود ہے مگر ان ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکے؟ یہ کس قسم کے آئی جی ہیں، ان کو ہٹا دینا چاہیے۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کئے جانے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔ بینچ کے معزز ججز میں جسٹس عرفان سعادت اور نعیم اختر افغان بھی شامل ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ایک کرائم کی ریکارڈنگ موجود ہے مگر ان ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکے؟ اٹارنی جنرل صاحب! یہ کس قسم کے آئی جی ہیں؟ ان کو ہٹا دیا جانا چاہیے، 4 سال ہو گئے ہیں اور آپ کو کتنا وقت چاہیے؟ کیا آپ کو 4 صدیاں چاہئیں؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انسپکٹر جنرل کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کسی صحافی کو گولی مار دی جاتی ہے، کسی کی گھر میں جا کر پٹائی کی جاتی ہے۔
اس موقع پر وکیل صفائی بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ اسد طور جیل میں ہیں، چیف جسٹس کے وجہ دریافت کرنے پر بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ اسد طور پر سرکاری افسران کا وقار مجروح کرنے کا الزام ہے۔
دوران سماعت جسٹس عرفان سعادت خان نے پوچھا کہ کیا ایف آئی آر میں ان افسران کا ذکر ہے جن کا وقار مجروح ہوا ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ ایف آئی آر میں کسی افسر کا نام نہیں لکھا گیا۔

مزید پڑھیں:  عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں نیب طلبی کا نوٹس چیلنج کردیا