سمگلنگ کی روک تھام کے تقاضے

وزیر اعظم شہباز شریف نے سمگلنگ کے خاتمے کے لئے ملک گیر مہم کو تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سے سمگلنگ کے جڑ سے خاتمے کا پختہ عزم رکھتے ہیں۔وزیراعظم کو سمگلنگ، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غلط استعمال، منشیات، اشیائے خورونوش بشمول چینی، گندم، کھاد، پٹرولیم مصنوعات، غیر قانونی اسلحے کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔ قبل ازیں نگران وزیر داخلہ بھی اس بارے میں اہم بیان دے چکے ہیںجن کا کہنا تھا اگر میں یہ کہہ دوں کہ سکیورٹی ایجنسیز ملوث ہی نہیں ہیں، تو یہ مناسب نہیں ہے کیونکہ جتنی بھی سمگلنگ ہوتی ہے، یہ کوئی اونٹوں پر نہیں ہوتی، سمگلنگ ٹرکوں پر ہو رہی تھی یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں کہ بلوچستان اور ایران کی سرحدوں پر تیل کی سمگلنگ کیسے ہوتی ہے ایک دو تین چار دس بیس گاڑیاں نہیں سینکڑوں گاڑیاں پٹرول لیکر آتی ہیں اسی طرح دیگر اشیاء کی سمگلنگ بھی چھوٹے نہیں بلکہ بہت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور نہایت منظم ہوتی ہے جو حکومتی اور دیگر اداروں و شخصیات اور عہدیداروں کی ملی بھگت اور اشیر باد کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی خوش آئند امر یہ ہے کہ جو بھی لوگ ملوث تھے ان کے بارے میں آرمی چیف نے بڑے واضح انداز میں ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا نہ صرف کورٹ مارشل ہوگا بلکہ جو لوگ اس طرح کی پریکٹسز میں ملوث ہیں، ان کو جیل بھی بھیجا جائے گا۔اس کے بعد کی کارروائی کی تفصیلات ہنوز باہر نہیں آئیں اگر ایسا ہوتا تو یہ بڑے اطمینان کی بات اور سنجیدہ امر ہوتا اس وقت کے نگران وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے ہاں افغان ٹریڈ کے نام پر تجارت کم اور سمگلنگ زیادہ ہو رہی تھی، اس کو بہتر کیا جارہا ہے ۔ جملہ امور سے قطع نظر پہلی مرتبہ اس امر کا سنجیدہ طور پر احساس ہو رہا ہے کہ بالاخر ریاستی سطح پر سمگلنگ کی روک تھام کا مصمم ارادہ کیا گیا ہے قبل ازیں بھی سرکاری افسران اور سیاستدانوں کے سمگلنگ میں ملوث ہونے کا سرکاری طور پر حوالہ دیا گیا تھا لیکن ابھی تک ان کے خلاف تحقیقات او رکسی تادیبی کارروائی کی اطلاع تو نہیں البتہ اشیائے صرف کی افغانستان سمگلنگ اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر ہونے والی قانون کے ساتھ ساتھ غیر قانونی تجارت کی روک تھام کے حوالے سے بھی توجہ کا عندیہ دیا گیا تھا افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حجم میں جس شرح سے اضافہ ہوتا آیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس سہولت کا ملی بھگت سے غیر قانونی استعمال ہو رہا ہے جو ملکی معیشت کے لئے خسارے اور نقصان کا باعث ہے گزشتہ برس کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹائروں ‘ گاڑیوں کے پرزوں ‘ چائے ‘ سگریٹ ‘ ٹیبل شیٹس ‘ موبائل فونز اور ڈیزل سمیت گیارہ اشیاء کی سمگلنگ سے پاکستان کو سالانہ دو ارب 63 کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے دیگر اشیاء کی سمگلنگ کو بھی اس میں شامل کیا جائے تو نقصان اندازوں سے بھی کہیں بڑھ کر ہوسکتا ہے ملکی معیشت کوبچانے کا اولین تقاضا یہ ہے کہ بالاخر بڑے پیمانے پر سمگلنگ کا خاتمہ کیا جائے ظاہر ہے بڑے پیمانے کی سمگلنگ بڑے پیمانے کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی گزشتہ کچھ عرصے میںایرانی ڈیزل ‘ پیٹرول اور پاکستان سے چینی کی سمگلنگ روکنے کے دوران جس بڑے پیمانے پر سمگلنگ کی اشیاء پکڑی گئیں گندم یہاں تک کہ مویشیوں تک کی سمگلنگ ہوتی ہے جس کے معیشت پر اثرات کے ساتھ ساتھ مارکیٹ پر اثرات کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے عوام اور صنعتی شعبہ دونوں ہی سمگلنگ سے متاثر ہوتے ہیں سمگلنگ حکومت کو ان محصولات سے محروم کرتی ہے جو ملک میں قانونی طور پر عاید ہوتے ہیں اور حکومت کی آمدنی کا ذریعہ ہوتے ہیں۔سمگلنگ کا دھندہ صرف لاقانونیت اور ملک کو جائز آمدن سے محروم کرنے کا باعث ہی نہیں بلکہ اس سے ملک میں زرمبادلہ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں نیز منشیات کی تجارت کی طرح سمگلنگ سے بھی موصول ہونے والی آمدنی میں کہیں نہ کہیں ملک دشمن اور شدت پسند عناصر کو بھی حصہ جاتا ہے یوں یہ معیشت کی تباہی سے لے کر امن و امان اور داخلی استحکام تک کے معاملات پر اثر انداز ہونے والا عمل ہے۔ سمگلنگ کے حوالے سے وزیر اعظم کا بیان جامع ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں صورتحال کی جامع انداز میں تصویر کشی کی گئی ہے اس طرح کھل کر بیان اور کارروائی کا عندیہ و اعلان صورتحال کے ادراک کے ساتھ ساتھ اس کی روک تھام اور بیخ کنی کا پختہ عزم بھی ہے جس سے سنجیدہ توقعات وابستہ نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں اس لعنت کی بالاخر روک تھام ہونی تھی اگر یہ اقدام حقیقت کی صورت میں سامنے آئے اور عملی طور پر اس کی روک تھام شروع ہو تو یہ حکومت اور ریاست کا قابل قدر اقدام ٹھہرایا جائے گا جو ملکی معیشت کی بحالی اور سہارا دینے کے لئے اہم تھا۔

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری