آبی وسائل کا مؤثر استعمال

خیبر پختونخوا کو آبی وسائل سے قدرت نے نہایت فیاضی سے مالامال کیا ہے ،لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد نہ تو کسی مرکزی نہ ہی صوبائی حکومت نے ان آبی وسائل کو درست استعمال کرتے ہوئے صوبے کو ان سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے، صوبے کے جنوبی اضلاع میں لاکھوں ایکڑ بنجر زمین کو اگر درست طور پر استعمال کرنے اور اس کو پانی فراہم کرنے پر مناسب توجہ دی جاتی تو نہ صرف صوبہ گندم اور دیگر اجناس میں خود کفالت کی منزل حاصل کر سکتا تھا بلکہ سستی ترین بجلی کے حصول میں اضافہ کرتے ہوئے بجلی کی کمی پر بہت حد تک قابو پایا جا سکتا تھا جو کوئلے، گیس، تیل اور دیگر ذرائع سے کہیں مہنگی بجلی کے مقابلے میں کم خرچ ہونے کی وجہ سے ملکی ضروریات میں مثبت کردار ادا کر کے موجودہ صورتحال میں فائدہ مند ثابت ہوتا ،موجودہ صوبائی حکومت نے اس صورتحال کی جانب توجہ دیتے ہوئے صوبے میں موجود آبی وسائل کے مؤثر استعمال کیلئے ٹانک زام ڈیم تعمیر کرنے کا فیصلہ کر کے یقینا صوبے کے مفاد میں ایک اہم اقدام اٹھایا ہے، جس سے نہ صرف آبی وسائل کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا بلکہ فوڈ سیکورٹی کے حوالے سے صوبائی حکومت کے اقدام کو بھی تقویت ملے گی ،وزیراعلیٰ سردار علی امین گنڈاپور کی صدارت میں اسلام آباد میں منعقدہ ایک اجلاس میں صوبے کو زرعی اجناس کی پیداوار میں خود کفیل بنانے کے سلسلے میں بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے کیلئے مجوزہ ٹانک زام ڈیم اور چشمہ رائٹ بینک کینال اپ لفٹ سکیم کی تعمیر کے علاوہ آبپاشی کے دیگر منصوبوں پر غور و خوض کر کے اہم فیصلے کیے گئے ،مجوزہ ٹانک زام ڈیم کی تعمیر سے جنوبی اضلاح کی ایک لاکھ ایکڑ بنجر اراضی سیراب ہوگی، جبکہ 25.5 میگا واٹ سستی بجلی بھی پیدا ہو سکے گی، مزید یہ کہ اس ڈیم کی تعمیر سے سیلاب کے نقصانات کو بھی کم کیا جا سکے گا، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے کی فوڈ سیکورٹی کے سلسلے میں بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے چھوٹے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہے، ان چھوٹے ڈیموں کی تعمیر سے نہ صرف صوبے میں غذائی اجناس کی قلت کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے بلکہ دیگر متعلقہ مسائل کو حل کرنے میں بھی مدد ملے گی، انہوں نے یقین دلایا کہ صوبائی حکومت ایک مربوط لائحہ عمل کے تحت اقدامات اٹھائے گی اور ترجیحی بنیادوں پر فنڈز کی فراہمی ممکن بنائے گی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جیسا کے اوپر کی سطور میں بھی گزارش کی جا چکی ہے، صوبے میں آبی وسائل کی فراوانی کے باوجود ماضی کی حکومتوں نے ان وسائل سے بھرپور استفادہ کرنے پر توجہ نہیں دی، بدقسمتی یہ بھی ہے کہ جنوبی اضلاع میں پہاڑوں سے اترنے والے بارش کے پانی کو کارآمد بنانے پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے یہ پانی پہاڑی ندی نالوں سے بہتا ہوا ضائع ہو جاتا ہے اور علاقے کے مقامی لوگوں کو آبپاشی تو دور کی بات جس کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ اراضی اب تک بنجر پڑی ہوئی ہے، آبنوشی کیلئے بھی پانی مہیا نہیں ہوتا اورپینے اور دیگر ضروریات کیلئے پانی کے حصول کیلئے خواتین میلوں کا سفر کر کے ان پہاڑی نالوں سے بہہ کر آنیوالے پانی کے ذخائر جو مختلف مقامات پر جوہڑوں کی صورت میں جمع ہوتا ہے، اورجہاں انسان اور جانور ایک ساتھ اس مضر صحت پانی سے استفادہ کرتے ہیں ،ان جوہڑوں کا گدلا اور مضر صحت پانی پینے سے انسانوں کے پیٹ میں ایک خطرناک کیڑا چلا جاتا ہے اور پیٹ کے اندر ہی پرورش پا کر بڑا ہو جاتا ہے، تو اسے ایک نہایت ہی پیچید ہ عمل کے ذریعے پاؤں میں جراہی کر کے نکالنے میں کئی کئی مہینے لگ جاتے ہیں، جبکہ احتیاطی تدابیر میں غفلت کی وجہ سے انسانوں کی موت تک واقع ہو جاتی ہے، بہرحال پہاڑوں سے اترنے والے ان ندی نالوں کے پانی کو چھوٹے چھوٹے ڈیمز میں اگر ذخیرہ کیا جائے تو نہ صرف مقامی آبادیوں کو پینے کا صاف پانی مہیا ہو سکتا ہے بلکہ ان سے زرعی اجناس میں خود کفالت بھی حاصل کی جا سکتی ہے، خصوصاً گندم ،جو، مکئی وغیرہ کی بھرپور فصلوں سے صوبے میں غذائی کمی پر قابو پایا جا سکتا ہے، بلکہ ہر سال گندم وغیرہ کے حصول میں بڑے صوبوں کا دست نگر ہونے سے بھی بچاجا سکتا ہے اور اتنی فاضل گندم حاصل کی جا سکتی ہے کہ اسے دیگر صوبوں کو فراہم کر کے صوبے کی آمدن میں اضافے کا بندوبست بھی کیا جا سکتا ہے ،امید ہے ٹانک زام ڈیم کی تعمیر کے مجوزہ منصوبے پر عمل درآمد میں تاخیر نہیں کی جائے گی اور اسے جلد از جلد مکمل کر کے علاقے کے عوام کو اس سے بھرپور استفادہ کرنے میں مدد دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  خبریں اچھی مگر نتائج؟؟