مالیاتی عدم مساوات اورعالمی ادارے

عالمی اقتصادی فورم میں عالمی صحت کے ایجنڈے کے حوالے سے ایک سیشن میں ا ظہارخیال کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ آج کاسب سے بڑا مسئلہ عالمی عدم مساوات ہے ، اس عدم توازن کو ، کووڈ نے مزید اجاگر کیا، اسی طرح موسمیاتی تبدیلی نے بھی منظر نامہ یکسر تبدیل کردیا ہے ، عالمی کاربن کے اخراج میں پاکستان کاکوئی حصہ نہیں لیکن اس کے باوجود ہم ریڈ لسٹ میں شامل ہیںاس نے پاکستان کو بہت زیادہ متاثر کیا ، 2022ء میں سیلاب سے پاکستان تباہ ہو گیا اور ہمیں عوام کی بحالی کے لئے اربوں روپے خرچ کرنا پڑے جب ہم نے اس حوالے سے عالمی فنڈزسے مدد مانگی تو انہوں نے تب مہنگے قرضوں کی پیشکش کی جسے ہم برداشت نہیں کرسکتے تھے ، اسی طرح 2011ء میں ڈینگی نے پاکستان کو بہت زیادہ متاثر کیا ،وہ ایک بہت بڑا چیلنج تھا ہم نے ماہرین کو جمع کرکے ان سے مشاورت کی اور سرتوڑ کوششوں کے بعد ہم ڈینگی پر قابوپانے میںکامیاب ہوئے ، ادھر آئی ایم ایف کی ایم ڈی وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ ملاقات میں مشورہ دیا ہے کہ پاکستان معاشی اصلاحات سے استحکام حاصل کر سکتا ہے ، ایم ڈی آئی ایم ایف کرسٹالینا جارجیوا نے اس سے پہلے ورلڈ اکنامک فورم کے خصوصی سیشن میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے دور پیغامات ہیں ، اور جن ملکوں میں مہنگائی بہت زیادہ ہے اسے ٹارگٹ لایاجائے ، انہوں نے کہا کہ ہم کسی حد تک مہنگائی میں کمی لانے میں کامیاب ہوئے ہیںتاہم کام ابھی باقی ہے ، انہوں نے کہا کہ بعض ممالک کو جن میں پاکستان بھی شامل ہے نمایاں مشکلات کا سامنا ہے ، دوسری جانب ایک اہم ٹی وی چینل کی خصوصی ٹرانسمیشن میں ماہرین نے معیشت کے حوالے سے گریٹ ڈیبیٹ میں ا ظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے لئے آخری لائف لائن ہے مشکل فیصلے کرنا ناگزیر ہو چکے ہیں دوست ممالک سے اب ”من وسلویٰ” ملنا مشکل ہے ایک مشہور بزنس مین نے کہا کہ ملکی معیشت زیادہ شرح سود سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے ساڑھے آٹھ ہزار ارب کے بجٹ میں سے ڈھائی ہزار ارب روپے کی کمی صرف شرح سود نیچے لاکرہی قابو کی جاسکتی ہے ، ایک اور ماہر اقتصادیات کے مطابق ٹیکس مشینری سے ساڑھے تین ہزار ارب روپے کی لیکج ہوتی ہے صرف رئیل اسٹیٹ ،زراعت اور ریٹیل کے شعبوں میں سے دو ہزار ارب کی لیکج ٹیکس وصولی پر منفی اثرات ڈالتے ہیں یہ ٹیکس ہم وصول نہیں کر پاتے یاپھر استثنیٰ دے دیتے ہیں ایک اور ماہر معیشت کے مطابق مہنگی توانائی ، زیادہ شرح سود اور زیادہ ٹیکسیشن نے صنعتوں کا بھٹہ بٹھا دیا ہے ، مینو فیکچرنگ کوقابل مسابقت بنانے کے لئے توانائی کی قیمت اور شرح سود کم کرنا ناگزیر ہے ایک اور نظریہ یہ سامنے آیا کہ پاکستان میں پالیسیوں کا تسلسل نہیں ہے ، ایف بی آر کے پاس سارا ڈیٹا موجود ہے کہ کس کی کتنی آمدنی ہے بینکوں میں کتنا پیسہ ہے ، کتنی گاڑیاں اور کتنی جائیدادیں ہیں کتنی بار بیرون ملک سفر کیا ہے ؟ مگر ایف بی آر اس ڈیٹا پر کوئی کارروائی کرنے پر تیار نہیں ہے ، امر واقع یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے جس اہم نکتے کی جانب عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے توجہ دلائی ہے اس سے پاکستان اور اس جیسے ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کے اصل مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے عالمی معیشت کو جس طرح معدود ے چند ترقیافتہ اور مالدار ممالک نے اپنی پالیسیوں کی وجہ سے جکڑ رکھا ہے اس سے عالمی سطح پر عدم مساوات پیدا ہو رہا ہے ، پاکستان ہی کو لیجئے ایک جانب تو عالمی وبائی صورتحال میں ہماری مدد کرنے کو کوئی تیار نہیں ہوا ، سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں ، کووڈ جیسی تباہ کن بیماریاں ہوں ،ڈینگی جیسے مسائل ہوں ، یا اور کوئی مشکلات ان سے نبٹنے کے لئے عالمی قوتوں کو آگے آکر بھر پور مالی مدد کے علاوہ ادویات وغیرہ کی فراہمی میں ان ممالک کو کردار ادا کرنا چاہئے تھا مگر الٹا ا نتہائی سخت شرائط پر مہنگے قرضوں کی پیشکش کرکے غریب ممالک کو اقتصادی طور پر کمزور کرنا ضروری سمجھا گیا ، اس وقت بھی آئی ایم ایف ایف قرضے دیتے ہوئے شرح سود میں اضافے اور یوٹیلٹی بلز میں بتدریج اضافے پر کمزور ملکوں کو مجبور کرکے جہاں انہیں اپنی پالیسیوں کو عوام کے مفاد میں تبدیل کرنے سے روکتی ہے وہاں بدقسمتی سے ملک کے اندر مراعات یافتہ طبقات کو ملنے والی سہولتوں کوختم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ، جس سے امیر مزید امیر جبکہ غریب ، غریب تر ہوتے جارہے ہیں ، مختصراً یہ بات جو گریٹ ڈیبیٹ میں بھی زیر بحث آئی اور وہ ہے سود کی شرح میں کمی ،تو جب تک اس مسئلے پر توجہ نہیں دی جائے گی ملکی معیشت کی بہتری اور مالیاتی عدم مساوات سے جان نہیں چھوٹے گی ، علاوہ ازیں ماضی میں جن لوگوں نے اربوں ، کھربوں کے قرضے لے کر معاف کروائے ہیں ان سے یہ قرضے واپس لے کر ملکی معیشت کو بہتر کرنے پرتوجہ دینا بھی ضروری ہے ، کیونکہ یہ قومی دولت تھی او رکسی کو بھی اختیار نہیں تھا کہ وہ اسے سیاسی یا کسی بھی بنیاد پر بانٹنے کا کوئی حق نہیں رکھتاتھا۔

مزید پڑھیں:  ڈیرہ کی لڑائی پشاور میں