آئی ایم ایف اعتراضات

آئی ایم ایف اعتراضات برقرار، ڈو مور کا مطالبہ

آئی ایم ایف اعتراضات بھاری ٹیکس کے نفاذ کے باوجود برقرار، ڈو مور کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ آئی ایم ایف کے مطابق 12 اعشاریہ 97 ٹریلین ایف بی آر کا سالانہ آمدن کا ٹارگٹ موجودہ بجٹ اقدامات کے ساتھ پورا نہیں ہوپائے گا۔
ویب ڈیسک: آئی ایم ایف اعتراضات بھاری ٹیکس کے نفاذ کے باوجود اپنی جگہ برقرار ہیں۔ وفاقی حکومت عوام پر ٹیکسز کا بھاری بوجھ ڈال کر بھی آئی ایم ایف کو قائل نہ کر سکا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ 12 اعشاریہ 97 ٹریلین ایف بی آر کا سالانہ آمدن کا ٹارگٹ موجودہ بجٹ اقدامات کے ساتھ پورا نہیں ہوپائے گا۔
نئے مالی سال میں آمدن کے مطلوبہ اعداد و شمار کے حصول کےلیے انتطامی حکومتی اقدامات کو آئی ایم ایف نے ناکافی قرار دیتے ہوئے انہیں ریونیو جمع کرنے کیلئے محض ایک اوزار کے طورپر قبو ل کرنے سے انکار کردیا۔
دوسری جانب پاکستانی حکام آءی ایم ایف کو منانے میں ناکام دکھائِ دینے لگے ہیں۔ اب ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اعداد وشمار پر کس طرح سے مطابقت پیدا کی جائے۔
اس سے قطع نظر سرکاری کوآرٹرز کی جانب سے خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سٹاف لیول ایگریمنٹ جلد ہی طے پاسکتا ہے تاہم فریقین میں فنانس ایکٹ 25-2024 میں منظور ہونے والے اقدامات کے تخمینے کے حوالے سے اختلافات سامنے آ گئے۔
آئی ایم ایف تخمینے کے مطابق 200 سے 250 ارب روپے کا خلا ان تمام تر اقدامات کے باوجود موجود ہے۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع نے بھی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت اس موقع پر مجبورا پرچون فروشوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کےلیے سخت ترین اقدامات کا اعلان کر سکتی ہے۔
بھاری ٹیکسیشن نے آئی ایم ایف کی ٹیم کو کنفیوز کردیا ہے اور ابھی تک وہ ایف بی آر کا یہ مؤقف ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ٹیکس کے ان اقدامات سے 1 اعشاریہ 747 ٹریلین روپے سے زائد کا اضافی ٹیکس حاصل ہوسکتا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق ریونیو کے فرنٹ 0.2 سے 0.25 ٹریلین روپے کا خلا موجود ہے۔ حکومت نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے ان میں سے کچھ کی منظوری حکومت نے عجلت میں دی جس کے نفاذ سے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔
اس حوالے سے آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا کہ مثال کے طور پر املاک کے لین دین میں 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے اطلاق سے قانونی لڑائی شروع ہوسکتی ہے۔
حکومت آگے کنواں پیچھے کھائی جیسی صورتحال کا شکار ہوگئی ہے کیونکہ دوسری جانب اسے تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار طبقات پر ٹیکسوں کی بھرمار سے ناقابل تصوربوجھ ڈالنے پر شدید ترین تنقید کا سامنا ہے۔
تو دوسری طرف آئی ایم ایف اب بھی غیر مطمئن ہے اور وزارت خزانہ اور ایف بی آر کی جانب سے سخت کوششیں کی جارہی ہیں کہ آئی ایم ایف کو کچھ نرمی دکھانے پر آمادہ کیا جا سکے۔
ٹیکسیشن کے اقدامات کے حوالے سے عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومت نے 10فیصد سرچارج انکم ٹیکس پر لگا یا ہے جو کہ 100ملین روپے سالانہ سے بڑھے گی۔
ایف بی آر گزشتہ برس کے 9.3 ٹریلین روپے کے ٹیکس کلیکشن کو بڑھا کر رواں برس 12 اعشاریہ 97 ٹریلین روپے کمانا چاہتا ہے جو کہ 40 فیصد اضافہ ہے۔ ایسے میں تنخواہ دار طبقہ شدید مالی مسائل کا شکار ہو سکتا ہے جبکہ نا فائلر کو فائلر کی فہرست میں لانے سے چند ایک مقامات پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے لئے نیا منصوبہ پیش کردیا