ہماری بلی ہمیں سے میائوں

پاکستان کے دفتر خارجہ نے گزشتہ روز جرمنی کے سفیر الفریڈ گراناس کو طلب کیا اور فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصل خانے پر حملے پر احتجاج کرتے ہوئے جرمنی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔واضح رہے کہ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں افغان شہری احتجاج کے دوران پاکستانی قونصل خانے میں داخل ہو گئے تھے۔ مشتعل مظاہرین نے پاکستانی قونصل خانے پر پتھرا ئوبھی کیا اور قونصل خانے کے باہر لگا پرچم بھی اتار کر لے گئے۔قبل ازیں وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے جرمنی میں افغان شہریوں کی جانب سے پاکستانی قونصل خانے میں گھس کر پاکستان کا پرچم اتارنے کے واقعے پر کہا کہ ہم سبز ہلالی پرچم کا دفاع کرنا جانتے ہیںحکام کے مطابق جرمن وزارت خارجہ نے پاکستانی سفارتی حکام کو واقعے کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کروائی ہے۔ جبکہ واقعے میں ملوث متعدد افراد کی گرفتاری کا بھی دعوی کیا ہے۔ جن سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔سوشل میڈیا پر وائرل فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ افغان شہری ایک احتجاج کے سلسلے میں پاکستانی قونصل خانے کے باہر جمع ہوئے، تاہم اس دوران آٹھ سے 10مظاہرین نے اجازت نامے کے برعکس پاکستانی قونصل خانے میں داخل ہو گئے، جنہوں نے قونصل خانے پر پتھرائو کیا اور پاکستانی پرچم اتار لیا۔افغان مظاہرین نے پاکستانی قونصل خانے کے باہر لگا پرچم اتار لیاافغانستان کا پرچم تھامے مظاہرین نے پاکستانی قونصل خانے میں داخل ہو کر قونصل خانے میں لگا پاکستانی پرچم اتار دیا۔ ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ احتجاجی مظاہرین پاکستانی پرچم اپنے ساتھ باہر لے آئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مشتعل مظاہرین نے پاکستانی پرچم کو جلانے کی بھی کوشش کی۔ جرمن حکام نے پولیس کی مزید نفری طلب کرکے حالات کو قابو کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کیا۔ پاکستانی حکام کے مطابق اب تک واقعے میں ملوث دو افغان شہریوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس ویڈیو شواہد کی مدد سے دھاوا بولنے میں ملوث مظاہرین کی شناخت کر رہی ہے جس کے بعد مزید گرفتایوں کا امکان ہے۔جرمنی کے مقامی میڈیا کے مطابق فرینکفرٹ شہر کی انتظامیہ نے افغان شہریوں کو صرف پاکستانی قونصل خانے کے باہر اجتجاج ریکارڈ کروانے کی اجازت دے رکھی تھی، تاہم مظاہرین اجازت نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی قونصل خانے کے اندر داخل ہوئے۔واقعے پر غیرملکی سفارتی تنصیبات کی سکیورٹی کی ذمہ داری جرمن حکومت کی ہے۔ اس معاملے پر بین الاقوامی برادری میں بھی سفارتی تنصیبات کی سکیورٹی کے معاملے پر تشویش پائی جاتی ہے۔ویانا کنونشن برائے قونصلر تعلقات 1963کے تحت میزبان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قونصلر احاطے کی تقدس کو یقینی بنائے۔جرمنی میں مقیم افغان باشندوں کی اس نازیبا حرکت کے اثرات مرتب ہونا فطری امر ہے جرمنی میں چند افراد کے اس اقدام سے پاکستان میں مقیم 30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین غیر یقینی میں مبتلا ہوگئے ہیں جبکہ پاکستان سے بیرون ملک جانے والے افغان باشندوں کے لئے بھی نئی مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں۔ جرمنی میں پاکستانی پرچم کی توہین کے بعد پاکستان میں مقیم 30لاکھ سے زائد افغان بھی غیر یقینی کا شکار ہوگئے ہیں اور سوشل میڈیا پر سخت ردعمل نے ان کیلئے مسائل کھڑے کردیئے ہیں تجزیہ کاروں کے مطابق جرمنی اور دیگر ممالک میں چین سے زندگی گزارنے والے افغان پاکستان میں مقیم افغان کے حوالے سے کوئی سوچ نہیں رکھتے اور نہ وہ جانتے ہیں کہ ا ن کے اس اقدام سے کتنا نقصان ہوسکتا ہے ۔ جس طرح افغان پاکستان کی جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنا کر بیرون ملک جاتے ہیں اور یہاں ان کی ایک نسل بلکہ دو نسلیں جوان ہوئیں پاکستان نے نہایت مشکل وقت میں ان کو پناہ دی اور دستگیری کی قطع نظر اس کے کہ انہوں نے ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک کے دوران افغانستان جانے والے مسلمانوں سے کیا سلوک کیا تھاان کی جعلی دستاویزات پر اور سمگلنگ کے الزامات پر ہونے والی عالمی بدنامی بھی ہمارے ہی حصے میں آئی ہے اس کے باوجود بھی پاکستان نے اس سال بھی ان کی وطن واپسی کی مدت میں ایک سال کی مزید توسیع کی ہے جس پر عوامی سطح پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا اس کے باوجود حکومت نے اپنا فیصلہ برقرار کھا بجائے اس کے کہ افغان شہری اس مہربانی پر ممنوں ہوتے ان کی نمک حرامی سب کے سامنے ہے جس کے بعد اب وہ مزید کسی اچھے برتائو کی مستحق نہیں بار بار کے تجربات اور ان کے حرکات و سکنات کے بعد اب مزید اسی سوراخ سے ڈسے جانے پر آمادگی عوامی سطح پر ناقابل برداشت ہو گئی ہے اور مشکلات کا شکار پاکستان ان عناصر کو بھی اپنی مشکلات میں اضافے کا باعث گردانتے ہیں جو خلاف حقیقت بھی نہیں جن عناصر نے پاکستانی پرچم بے حرمتی کی ہے جرمنی کی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کرے پاکستانی حکام کو بھی ان میں سے ایک ایک کے چہرے اور ویڈیو محفوظ کرکے اس بات کا انتظار کرناچاہئے کہ جب بھی موقع ملا ان کو مزہ ضرور چکھا دیاجائے۔

مزید پڑھیں:  گرڈ سٹیشنز پر حملوں کی روک تھام پر توجہ