سپریم کورٹ ججز کی تعداد

سیاسی جماعتوں کا سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے پر اتفاق

ویب ڈیسک: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے اجلاس میں سیاسی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے پر اتفاق کر لیا ہے۔
پی ٹی آئی کے حامد خان کی آئینی عدالتوں کی تشکیل سے متعلق تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ آئینی عدالت سپریم کورٹ ہے دنیا میں اگر آئینی عدالت الگ بنائی گئی تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے پر اتفاق کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد بڑھانے سے متعلق زیر التوا مقدمات جبکہ ہائی کورٹس میں ججز کی خالی اسامیوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔
چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وزارت قانون و انصاف کے تفصیلات پیش کرنے پر سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا معاملہ طے ہوگا، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کتنی ہوگی یہ کمیٹی طے کرے گی، سپریم کورٹ میں کیسز کا بوجھ بڑھا مگر ججز وہی 17 ہیں۔
بل کی محرک سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا کہ ابھی بھی تو 4 ایڈہاک ججز کی تجویز آئی یہ ججز کی تعداد بڑھانے کی ضرورت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس سے مقدمات کی تفصیل منگوا کر دیکھ لیں تو پھر بحث کر سکتے ہیں کیا پتہ 24 ججز سپریم کورٹ میں درکار ہوں۔
اس پر سینیٹ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کا بل آئندہ اجلاس تک موخر کردیا۔
قبل ازیں اجلاس میں سپریم کورٹ ججز کی تعداد بڑھانے سے متعلق تحریک انصاف کی سینیٹر فوزیہ ارشد کی جانب سے کمیٹی میں پیش آئینی ترمیمی بل کا جائزہ لیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی فارق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانا سادہ قانون سازی سے ممکن ہے، ججز کی تعداد بڑھانے کے لیے آئینی ترمیم درکار نہیں، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 19 نہیں بلکہ 21 ہونی چاہیے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ایک آئینی عدالت ہونا چاہیے، اپیلیٹ فورم ہائیکورٹ کے سطح تک محدود کر دیں، سپریم کورٹ میں جائزہ لے لیں کہ کتنے فل کورٹ یا لارجر بنچز بنائے گئے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر حامد خان نے کہا کہ آئینی عدالت سپریم کورٹ ہے اور کوئی اور ہونی نہیں چاہیے، دنیا میں اگر آئینی عدالت الگ بنائی گئی تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے، فرانس اور جرمنی میں آئینی عدالتی متوازی نظام کے طور پر کام کرتے ہیں بھارت میں ہم سے کئی گنا زیادہ آبادی پر ایک سپریم کورٹ ہی ہے۔
رکن کمیٹی سینیٹر انوشہ رحمان نے کہاکہ سپریم کورٹ کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے، ہماری عدلیہ ہائی پروفائل کیسز میں الجھ گئی ان کیسز کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے کہ جن سے خبر بنے، کچھ ججز اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں جبکہ کچھ نہیں کر رہے۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام کی حمایت کرتی ہوں، وزیر قانون حقائق دیں کہ ججز کی کنڈکٹ کی وجہ سے زیر التوا کیسز بڑھ رہے ہیں یا کسی اور وجہ سے، دیکھنا یہ ہیں کہ کتنے ججز کی سپریم کورٹ میں ضرورت ہے۔
وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے کہا کہ یہ عدلیہ کی آزادی نہیں یہ عدلیہ کی صلاحیت کا ایشو ہے ماتحت عدلیہ سے لے کر سپریم کورٹ تک ججز آزادی کو انجوائے کرتے ہیں ٹائم لائین کو سب بھول گئے ہیں عدلیہ کی پوری دنیا ریٹنگ کم کیوں ہے؟ مشورہ دیا گیا کہ وقت ایسا ہے کہ آئینی عدالت کی طرف جانا چاہیے۔

مزید پڑھیں:  راجگل متاثرین کا دھرنا 33ویں روز میں داخل، تجارتی سرگرمیاں معطل