پارلیمنٹ پر” حملہ”؟

گزشتہ روز پارلیمنٹ پر ”دھاوا” بول کر جس طرح تحریک انصاف کے رہنمائوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ، اس پر سپیکر قومی اسمبلی نے تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا جو اقدام کیا ہے اس پر اظہار اطمینان کیا جانا چاہئے مجوزہ کمیٹی تمام حالات کا جائزہ لے کر اور سی سی ٹی وی فوٹیجزکا معائنہ کرکے اپنی رپورٹ مرتب کرے گی ، سپیکر قومی اسمبلی نے گرفتار ارکان اسمبلی اجلاس میں شرکت کے حوالے سے نہ صرف پروڈکشن آرڈر جاری کیا بلکہ آئی جی اسلام آباد کو بلا کر گرفتاریوں پر شدید برہمی کا اظہار بھی کیا ، انہوں نے آئی جی کو حکم دیا کہ نہ آپ پارلیمنٹ ہائوس سے کسی کو گرفتار کر سکتے ہیں نہ پارلیمنٹ لاجز سے انہوں نے پارلیمینٹرینز کو فوری رہا کرنے کا بھی حکم دیا اور ان سطور کے لکھے جانے تک بعض گرفتار رہنمائوں کی رہائی کے حوالے سے خبریں بھی سامنے آچکی ہیں جو اصولی طور پر قابل اطمینان ہیں ادھرگزشتہ روز اس حوالے سے قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تقریروں میں بعض تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جبکہ تحریک انصاف کے رہنمائوں نے ایک پریس کانفرنس میں جمعہ کو اس مسئلے پر ملک گیر احتجاج کی کال دے دی ہے ۔ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ فوجی تنصیبات پر حملہ قابل مذمت ہے لیکن پارلیمنٹ پر حملہ بھی قابل مذمت اور شرمناک ہے تاہم ان رہنمائوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے بیان پرمعذرت سے انکار کر دیا اس ضمن میں نہ صرف حکومتی وزراء کی جانب سے پارلیمان پرحملے کے جواب میں تحریک انصاف دور میں پارلیمنٹ لاجز میں اپوزیشن جماعتوں خصوصاً جمعیت علمائے اسلام کے بعض رہنمائوں کو جس طرح گھیسٹ گھیسٹ کر باہر لانے اور گرفتار کیا گیا تھا کی یاد دلا کر جوابی وار کیا جارہا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر اس واقعے کی فوٹیجز بھی ایک بار پھر سامنے لا کر جواز ڈھونڈا جارہا ہے ہماری دانست میں یہ مناسب ہے نہ اسے درست قرار دیا جا سکتا ہے اس لئے کہ ”غلط اور غیر آئینی”کام جب بھی جس عہد میں ہوا ہو اسے موجودہ یا آنے والے ادوار میں جواز نہیں بنایا جا سکتا رہ گئی بات وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے بیان پر معذرت نہ کرنے کی تو یہ بھی ہٹ دھرمی کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے بیان میں جو زبان استعمال کی گئی اس کی کسی بھی صورت میں تائید نہیں کی جا سکتی موصوف کے بیان سے جو منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ان پر ملک بھر میں اعتراضات ہی سامنے آرہے ہیں ہم بھی تبصرہ کرتے ہوئے زیادہ سخت زبان استعمال کرنے سے حتی الامکان گریز کر رہے ہیں لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ نفرت کی سیاست خواہ کوئی بھی کرے ملک کے مستقبل کے لئے نقصان دہ ہے ، اس لئے اس سے جس قدراحتراز کیا جائے بہتر ہے ، ادھر تحریک انصاف کے رہنمائوں نے جمعہ کو جس ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے ، یہ ان کا آئینی حق ہے تاہم اتنی گزارش کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ جب سپیکر قومی اسمبلی نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے نہ صرف تحقیقاتی کمیٹی بنا دی ہے آئی جی اسلام آباد کو طلب کرکے گرفتار رہنمائوں کی رہائی کا کہا ہے تو اسے اصولی طور پر تحریک انصاف کے مطالبے کی پذیرائی سمجھتے ہوئے اگر احتجاج کی کال واپس لی جائے تو ملکی سیاست پر اس کے مثبت اثرات پڑیں گے اور ضرورت بھی اس امر کی ہے کہ سیاسی ماحول کو ٹھنڈا رکھا جائے ، اس لئے کہ سیاسی تپش میں اضافے کا نہ ملک کو فائدہ پہنچ سکتا ہے نہ سیاسی جماعتوں کو ادھر تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اپنے تازہ بیان میں مذاکرات کا دروازہ بند کرنے کی جو دھمکی دی ہے اس پر حسب معمول سوال اٹھائے جا سکتے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لئے کس سے انکار کر رہے ہیں؟ سیاست میں مذاکرات سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان ہوتے ہیں جبکہ عمران خان ابھی تک اپنی ضد اور انا پر اڑے ہوئے ہیں اور حکومت کے ساتھ مذاکرات سے مسلسل انکار کر رہے ہیں جبکہ(مذاکرات کے دروازے بند کرنے کے اعلان تک) وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی مذاکرات پر اڑے ہوئے تھے جو آئینی طور پرایک غلط رویئے کی نشاندہی کرتے ہیں ، اس لئے کہ جن ”حلقوں”کے ساتھ ”مل کر”وہ حکومت میں آئے تھے اور ان پر ہی اپنی حکومت گرانے کے الزامات دھرتے رہے ہیں اب ان حلقوں نے سیاست میں مزید مداخلت سے انکار کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ مذاکرات حکومت کے ساتھ ہی کئے جائیں ایسی صورت میں اگرچہ واقفان حال کچھ اور کہانیاں بھی سنا رہے ہیں کہ جب سے نو مئی کے واقعات کے حوالے سے متعلقہ تمام حلقوں پر گرفت میں سختی ہوتی جارہی ہے اس کے بعد بیانات میں بھی تنائو کی کیفیت بڑھ رہی ہے بہرحال تحریک انصاف کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرکے معاملات درست کرنے پر توجہ مرکوز کرے ، اسی میں بھلائی ہے۔

مزید پڑھیں:  بیماری کو جڑ سے اکھاڑیئے