بھارت کی ورکنگ باؤنڈری کی باربار خلاف ورزی

بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن پر سیزفائر معاہدے کی بار بار خلاف ورزی بلاوجہ اشتعال انگیزی کے زمرے میں ہی نہیں آتا بلکہ بھارت کی اس مسلسل چھیڑ چھاڑ کے پس پردہ کوئی منصوبہ بھی کارفرما نظر آتا ہے۔ معلوم نہیں کہ بھارت خطے کا امن خطرے میں ڈالنے کے درپے کیوں ہے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ کوئی دن نہیں جاتا جب بھارت کنٹرول لائن پر کوئی شرارت نہ کرے۔ ایک اندازے کے مطابق امسال بھارت چار سو سے زائد مرتبہ سرحدی خلاف ورزی کا ارتکاب کر چکا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارت نے دونوں ملکوں کے مابین سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزی کو معمول بنا لیا ہے اور بھارتی فوج بدمستی کے عالم میں جب چاہے اندھادھند فائر کھول کر سرحدی آبادی کو نشانہ بناتی ہے۔ سمجھ سے بالاتر امر یہ ہے کہ بھارت اس قسم کی صورتحال کیوں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ بھارت ہر بار جنگ کی صورتحال پیدا کرکے خطے کا امن خطرے میں ڈالنے کا باعث بنتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت سرحدی کشیدگی میں کمی کی بجائے اضافے کا خواہاں ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ جہاں سرحدوں پر پاکستانی شہریوں کے تحفظ کیلئے دفاعی اقدامات پر توجہ دے وہاں اس معاملے کو بھارت کیساتھ مختلف فورمز پر اُٹھانے کے علاوہ اقوام متحدہ کی سطح پر بھی اس مسئلے کو اُٹھایا جائے اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا جائے۔ عالمی برادری کو اس امر کا ادراک ہونا چاہئے کہ اس طرح کی صورتحال سے خطے کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے جس کا ذمہ دار بھارت ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی صورتحال میں قیام امن مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں کوشش کرکے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس صورتحال کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے کشیدگی کا خاتمہ کرنا ہی بہتر حل ہوگا جب تک اس کیلئے راہ ہموار نہیں ہوتی تب تک دونوں ملکوں کے حق میں بہتر یہ ہوگا کہ وہ تعلقات میں بہتری لانے کیلئے دونوں ممالک کے شہریوں کے ایک دوسرے کے ملک آنے جانے میں سہولیات دینے پر توجہ دیں، دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی وادبی وفود کے تبادلوں میں اضافے پر توجہ دی جائے اور دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے روابط کے فروغ اور خاص طور پر کرکٹ کے روابط کی فوری بحالی پر توجہ دی جائے۔ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات خطے کے امن کیلئے نہایت ضروری ہیں۔ باہم تعلقات میں کشیدگی کا عنصر خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے جس کا جتنا جلد احساس وادراک ہوگا اتنا ہی بہتر ہوگا۔
سگریٹ نوشی سے بڑھتی ہلاکتیں
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں10سے24 سال کی عمر کے تقریباً 2ارب افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ جبکہ دنیا بھر میں 50لاکھ سے زائد افراد سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تمباکو دنیا میں پھیپھڑوں کے کینسر سے ہونیوالی 90فیصد اور تمام اقسام کے کینسر سے ہونیوالی 20فیصد اموات کی وجہ ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں تمباکو نوشی میں کمی کے بجائے دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ چھوٹے چھوٹے لڑکے اور نوجوان سگریٹ نوشی کی بری عادت میں مبتلا ہیں۔ اصولی طور پر کسی دکاندار کو اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو سگریٹ فروخت نہیں کرنی چاہئے مگر یہاں سگریٹ تو کیا چرس’ شراب’ آئس اور ہر قسم کی نشہ آور اشیاء بہ آسانی دستیاب ہیں۔ باآسانی دستیابی کسی نشے میں اضافے اور اس کے عام ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پبلک مقامات پر قانونی طور پر سگریٹ نوشی کی ممانعت ضرور ہے لیکن اس قانون پر عملدرآمد کون کرائے، کیسے کرائے اور سرعام بسوں’ پارکوں اور عوامی مقامات پر سگریٹ پینے والوں کو کون روکے، کسی کو اس سے غرض نہیں۔ اگر ہمیں اس لعنت کی روک تھام کرنی ہے تو پھر سگریٹ کی ڈبیوں پر اس کے مضراثرات کی تشہیر کافی نہیں بلکہ اس کا عام زندگی یہاں تک کہ ڈراموں اور فلموں میں بھی اس کے استعمال کی نمائش پر پابندی لگائی جائے نہ کہ سگریٹ نوشی کا منظر دکھا کر پھر اس بارے ایک بے جان تحریر دکھا دی جائے سگریٹ نوشی کی ہر سطح پر ممانعت کی ضرورت ہے۔ والدین اپنے بچوں سکولوں’ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ اپنے شاگردوں کو اس مضر صحت نشہ سے بچنے کی برابر تلقین بھی کریں اور ان پر نظر بھی رکھیں۔ حکومت کو سگریٹ کی فروخت اور سگریٹ نوشی کی ممانعت کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد کی ذمہ داری سختی سے نبھانے کو یقینی بنانا چاہئے۔ جب تک اس فعل کو معاشرے میں برا خیال نہیں کیا جائے گا اور اس کی مجموعی طور پر مذمت نہیں کی جائے گی اس لعنت کی روک تھام ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟