عوام کا سچا اور مکمل اختیار

کرونا کی دوسری لہر کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور وطن عزیز میں ہنگامی سیاست کا دور دورہ بھی ہے، غریب کا بلڈپریشر تو مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی وجہ سے اکثر ہائی رہتا ہے، کرنسی اپنی قدر روزبروز کھو رہی ہے، چند سبزیاں اور دالوں کی خریداری کے بعد سفید پوش آدمی کی جیب میں پھر اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ رکشے کا کرایہ ادا کرسکے، عام آدمی کی پریشانی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن جب سیاستدانوں کو گرجتے برستے دیکھتے ہیں تو ذہن میں یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ انہیں کیا پریشانی ہے؟ چند دن پہلے شیخ رشید کو اتنے زور سے گرجتے برستے دیکھا کہ ہمیں ڈر پیدا ہوگیا کہ خدا نخواستہ انہیں کچھ ہو نہ جائے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے سیاستدان عزیز ہیں، ان کی ایک دوسرے سے تلخیاں اور رقابت بھی عام آدمی کیلئے فائدہ مند ہے، سیاسی بحث میں پڑے بغیر اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں کی وجہ سے وزیراعظم اب بہت سے ضروری امور پر توجہ دینے لگے ہیں، ہمیں تو عوام کی فکر ہے کیونکہ عام آدمی ہر دور میں پریشان ہی رہا ہے اور اس کے پریشان ہونے کی سب سے بڑی وجہ اس کا عام آدمی ہونا ہے۔ عوام کیلئے سیاستدانوں کی رقابت بھی بہت بڑی خوشخبری ہے، پچھلے دور میں فرینڈلی اپوزیشن کی اصطلاح بہت استعمال ہوتی تھی جس کا نقصان بھی عوام ہی کو تھا، اب وہ صورتحال نہیں رہی سب کے بلڈپریشر ہائی ہیں جس سیاستدان کو بھی دیکھئے وہ اونچے سروں میں بات کرتا نظر آتا ہے، ہر طرف سے میزائلوں کی بارش ہورہی ہے، ایک دوسرے پر زور وشور سے تنقید کی جارہی ہے، میڈیا بھی اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کررہا ہے، انہیں جب خبر ہاتھ لگتی ہے تو پھر بریکنگ نیوز کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ہر محب وطن کی یہ خواہش ہے کہ ہمارے پیارے وطن کی معیشت مضبوط ہو وہ کسی کا دست نگر بن کر نہ رہے، جب اپنے مسائل پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے تو ہمیں اپنا وطن بیرونی مسائل سے زیادہ اندرونی مسائل کا شکار نظر آتا ہے۔ مسائل کی بھی قسمیں ہوتی ہیں بعض ایسے مسائل ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کیساتھ ساتھ حل ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن بعض مسائل اتنے پائیدار اور دائمی ہوتے ہیں کہ جن سے نجات کی کوئی صورت نظرنہیں آتی، جیسے پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے یہ بحث کہ یہاں جمہوری اداروں کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا جاتا لیکن ہم اس بحث میں پڑے بغیر یہ دیکھتے ہیں کہ جب جمہوری حکومت بن جاتی ہے تو پھر جمہوریت کی خوبیاں اور خامیاں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ہم جمہوریت کی غیرموجودگی میں جمہوریت کی بحالی کیلئے عرصہ دراز سے دعائیں مانگ رہے ہیں، اب جبکہ جمہوری حکومت بن چکی ہے تو ہم پر اس کے بہت سے اندھیرے اُجالے واضح ہورہے ہیں، اس وقت عوام سیاستدانوں کی سیاست کا بڑے غور سے مشاہدہ کررہے ہیں، اب آہستہ آہستہ لوگوں کے سامنے سیاستدانوں کے چہرے بے نقاب ہوتے چلے جارہے ہیں، ہمارے ہاں اگر دورحاضر میں کوئی مہاتیر محمد، ماؤزے تنگ اور نیلسن منڈیلا پیدا نہیں ہوا تو اس کا سیدھا اور آسان جواب یہ ہے کہ رہنما بھی کسی قوم میں اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب قوم کی سوچوں پر قدغن نہ لگائی جائے اسے اپنے نمائندے آزادی کیساتھ چننے کا پورا پوار موقع دیا جائے، مسائل پر بات چیت کے دروازے کھلے ہوں۔ قوموں کا عروج صاحب کردار سیاستدا نوں سے وابستہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کیلئے جیتے ہیں جن کا مرنا جینا اپنی قوم کیلئے ہوتا ہے مال ودولت، بینک بیلنس اور بڑے بڑے پلازوں سے بے نیاز ہوتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دم قدم سے قومیں آباد ہوتی ہیں، ترقی کرتی ہیں، جو قوم کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ اس وقت کام میں مصروف ہوتے ہیں جب دوسرے لوگ سو رہے ہوتے ہیں، ہمارے یہاں ایسے رہنما نہ ہونے کے برابر ہیں جو قوم کی فلاح وبہبود کیلئے خلوص دل سے کام کریں، یہاں اکثریت کی کمزوری سو برس کا سامان اکٹھا کرنا ہے جبکہ پل کی خبر نہیں، مال ودولت کی زیادتی اور آسائشیں انسان کو اندر سے کھوکھلا اور اخلاقی طور پر کمزور دیتی ہیں۔ قومیں تو ان لوگوں سے بنتی ہیں جو زندگی کے تلخ حقائق کا مردانہ وار سامنا کرنا جانتے ہیں جبکہ ہمارے سیاستدانوں کے ہاں نامساعد حالات میں ملک چھوڑ دینے کی روایت بڑی عام رہی ہے، ملک سے باہر بیٹھے ہوئے سیاستدانوں کو دیارغیر میں ایسے نادیدہ ہاتھوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے جنہوں نے ان کی پیٹھ ٹھونک کر ہمیشہ اپنا الو سیدھا کیا اور عوام دھوکا کھاتے رہے۔ ہمیں ایسے رہنما چاہئیں جو قوم کو کسی حالت میں بھی تنہا نہ چھوڑیں، ان کے دکھ سکھ میں برابر کے شریک ہوں، اپنے ملک کے حالات سنوارنا ان کی پہلی ترجیح ہو، وہ اپنی ذات سے بالاتر ہوکر سوچیں، ایسے رہنما کبھی پسپا نہیں ہوتے، انہیں عوام کبھی تنہا نہیں چھوڑتے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے عوام اب بہت سے اُتار چڑھاؤ دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں، یہ اپنی زمین پر اپنا اختیار چاہتے ہیں، ہمارے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف عوام کے سچے اور مکمل اختیار میں پوشیدہ ہے۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے