ایل این جی کا غیر شفاف معاہدہ

شاہد خاقان عباسی کی جانب سے یہ بات سامنے آتی رہی کہ ایل این جی کیس محض ایک سیاسی مقدمہ ہے اور اس میں کچھ نہیں ہے۔مجھے ان کے اعتماد نے کنفیوژ کئے رکھا میں قابل ذکر تحقیقی مواد کے باوجود اس بابت کچھ لکھ نہ پایا گزشتہ روزمیری کنفیوژن دور ہوگئی ہے۔شاہد خاقان عباسی اور ندیم بابر کے مابین مناظرے نے مجھ سمیت تمام ناظرین کو سمجھنے میں مدد دی کہ میاں نوازشریف کی حکومت کے دوران ہونے والے ایل این جی معاہدے کی شرائط نے قومی خزانے کو کتنا نقصان پہنچایاہے ۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی ندیم بابر کے سوالات کے سامنے تو نوازشریف دور کے سابق وزیرپٹرولیم تقریباً لاجواب دکھائی دیئے۔ایل این جی معاہدہ 15سال کیلئے کیوں کیا گیا اس کا وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔نہ ہی وہ نئی ایکسپلوریشن کی بابت بتا سکے کہ نواز حکومت کے پانچ سالہ دور میں یہ غفلت کیوں کی گئی۔گورنمنٹ انفراسٹر کچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں جو226ارب روپے اکٹھے کئے گئے ان کے بارے میں تو شاہد خاقان عباسی بتانے سے مکمل قاصر رہے کہ یہ رقم کس مد میں کہاںخرچ کی گئی جبکہ ندیم بابر نے دستاویزی ثبوت کیساتھ بتایا کہ نوازشریف کے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے گیس کمپنیوں کو جواب دیا تھا کہ پائپ لائنیں بچھانے کے لئے وہ اپنے طور پر رقم اکٹھی کرنے کا بندوبست کریں اوریہ کہ GIDCوالے226ارب روپے کہیں اور خرچ ہوگئے ہیں۔ شاہدخاقان عباسی کے مقابلے میں ندیم بابر نے جو اعداد دوشمار پیش کئے وہ گواہی دے رہے تھے کہ ایل این جی معاہدہ کرتے وقت قومی مفادات کو نظر انداز کیا گیا اور مارکیٹ مکینزم کو پیش نظر رکھ کر ایل این جی کی قیمت اور معاہدے کے دورانیے کا تعین نہ کیا گیا۔ایل این جی ٹرمینل کے حوالے سے شاہد عباسی کے خلاف نیب نے مقدمات بھی دائر کر رکھے ہیں۔اس حوالے سے احتساب عدالت نے شاہد خاقان اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پر نومبر میں فرد جرم بھی عائد کی ہوئی ہے۔نیب ریفرنس کے مطابق ایل این جی کے غلط معاہدے سے15سالوں میں عوام پر68 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا جبکہ قومی خزانے کو2029تک47ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔مسلم لیگ ن ایل این جی معاہدے کا دفاع کرتی آرہی ہے حالانکہ اول دن سے اس معاہدے پر اعتراضات سامنے آئے اورکہا گیا کہ اس معاہدہ سے مہنگی گیس خریدی جائیگی اور قومی خزانے کونقصان پہنچے گا۔آج شاہد خاقان نیب مقدمے کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں لیکن ان کی جانب سے ہمیشہ ایل این جی معاہدے کو منظر عام پر لانے سے گریز کیا گیا اس سے قوم شک وشبے میں مبتلا ہوئی اور معاہدے کی شفافیت پر سوالات اٹھے۔نیب نے اپنے ریفرنس میں شاہد خاقان کے اکائونٹ میں بعض شکوک ٹرانزیکشن کی بھی نشاندہی کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ2013ء سے 2017ء کے درمیان1.4ارب روپے اور1.2ارب روپے کی دوٹرانزیکشنز شاہد خاقان عباسی کے اکائونٹ میں ہو ئی ہیں جن کی وضاحت نہیں دی گئی ہے۔شاہد خاقان عباسی پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے پٹرولیم کا وزیر ہوتے ہوئے پاکستان سٹیٹ آئلPSOمیں غیر قانونی تعیناتیاں کیں۔ان میں سے ایک تعیناتی ایم ڈی پی ایس او کے منصب پر شیخ عمران الحق کی تھی جو کہ ماہانہ49لاکھ روپے کی تنخواہ وصول کرتے رہے۔ڈپٹی ایم ڈی کی پوزیشن پرا نہوں نے یعقوب ستار کو لگایا جو ماہانہ27لاکھ روپے تنخواہ لیتے رہے۔نیب کے مطابق شیخ عمران الحق کو آئل مارکیٹنگ کاکوئی تجربہ نہیں ہے اور انکی تعیناتی سیاسی طور پر لوگوں کو نوازنے کی ایک بد ترین مثال ہے۔نیب کی طرف سے الزام ہے کہ یہ تعیناتیاں کرتے وقت ان تمام قوانین اور رولز کو پس پشت ڈال دیا گیا جو کہ پبلک سیکٹر آرگنائزیشنز کے چیف ایگزیکٹو آفیسرز کی تعیناتیوں کیلئے عدالت عظمیٰ کی رولنگز میں وضع کئے گئے ہیں۔ایس ای سی پی نے بھیCEO کی تعیناتی کیلئے رولز وضع کئے ہوئے ہیں لیکن حکومتیں اپنے لوگوں کو نوازنے کے لئے ان کی خلاف ورزی کرتی ہیں چنانچہ عدالت عظمیٰ کو اصلاح کیلئے مداخلت کرنا پڑتی ہے۔مسلم لیگ (ن)کے دور حکومت میں ایک اور بد ترین مثال پی ٹی وی کے ایم ڈی کی حیثیت سے عطاء الحق قاسمی کی تقرری تھی قبل ازیں بطور ایم ڈی ابصار عالم کا کیس بھی عدالت عظمیٰ نے ٹیک اپ کیا تھا جس کی وجہ سے انہیں چارج چھوڑنا پڑ گیا تھا۔تحریک انصاف کے دور حکومت میں ابھی تک کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی ہے کہ سیاسی بھرتیوں کیلئے قوانین اور رولز سے انحراف کیا گیا ہو۔بات شروع ہوئی تھی سابق وزیراعظم کے خلاف ایل این جی مقدمے کے حوالے سے جس کی بابت اب میرے ذہن میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ انہوں نے قومی مفادات سے ہٹ کر یہ معاہدہ کیا جسکا بوجھ عوام پر بھی پڑے گا اور قومی خزانے پر بھی اس سے شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے