جمہوری اقدار کی پاسداری کیلئے چیف جسٹس کے عزائم

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے عدلیہ میں جمہوری اقدار کی پاسداری کے عزائم کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ انہی اقدار کے تحت ہم آگے بڑھیں گے، انہوں نے وکلاء کو ہڑتال کلچر ختم کرنے پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وکلاء کو کسی طرح پر تشدد نہیں ہونا چاہئے، اگر فیصلہ پسند نہیں تو ججوں سے جھگڑا نہ کریں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت کی مضبوطی عدلیہ کے استحکام کیساتھ مشروط ہے کیونکہ عدلیہ آئین کی محفاظ ہے، عدلیہ ریاست کے تین ستون میں سے اہم ستون ہے، یہ بات خوش آئند ہے کہ چیف جسٹس جمہوری اقدار کیساتھ آگے بڑھنے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں، چیف جسٹس وکلاء اور عدلیہ میں ہم آہنگی کیلئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں اور وکلاء کی طرف سے ہڑتال کلچر کے خاتمے کی یقین دہانی ان کی بڑی کامیابی ہے، کیونکہ وکلاء کی ہڑتال کے باعث ججز کیلئے مقدمات کو نمٹانا مشکل ہو جاتا تھا اور یوں مقدمات کے انبار لگ جاتے تھے، پنجاب بار کونسل کی تقریب میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے مقدمات کی طوالت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دادا کے مقدمے کافیصلہ پڑپوتے کے وقت ہونے کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا، پشاور ہائی کورٹ کے مرحوم چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے زیر التوا مقدمات کو اگر چہ برق رفتاری سے نمٹانے کی کوشش کی اور کافی حد تک عدلیہ پر زیر التواء مقدمات کے بوجھ کو کم بھی کیا ہے، تاہم ابھی زیر التواء مقدمات کی مجموعی تعداد20لاکھ سے متجاوز ہے، خیبرپختونخوا کی ماتحت عدلیہ زیر التواء کیسز کی تعداد2لاکھ جبکہ پنجاب میں سب سے زیادہ زیر التواء کی تعداد ہے جو کہ12لاکھ سے متجاوز ہے، زیر التواء کیسز کی دیگر بے شماروجوہات کیساتھ ایک بڑی اور اہم وجہ بار اور بنچ میں عدم تعاون اور مخاصمت بھی ہے، لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس پہلو کی طرف چیف جٹس آف پاکستان کی توجہ دلائی اور اسے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔اس مقصد کیلئے پہلے مرحلے میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان سے گزشتہ دوسال میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کی تفصیل طلب کی گئی ۔پنجاب بھر میں بار اور بنچ کے درمیان ناخوشگوار واقعات کا ڈیٹا اکٹھا ہونے کے بعد وکلاء کیساتھ مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے اور اب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی محنت وکلاء کی طر ف سے ہڑتال ختم کرنے کے اعلان کی صورت سامنے آرہی ہے۔بار اور بنچ جب ایک پیج پر ہوں گے تو امید کی جاسکتی ہے کہ زیر التواء مقدمات کے حجم میں نمایاں کمی واقع ہوگی۔انصاف کی آسان اور فوری فراہمی چونکہ تنہا عدلیہ کا کام نہیں ہے اس سلسلے میں درکار وسائل کی فراہمی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اگر حکومت کی طرف سے عدلیہ کو وسائل کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جاتی تو انصاف کی فوری اور آسان فراہمی کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا، اس حوالے سے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عدلیہ کو25 فیصد ججر کی کمی کا اظہار کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ اگر عدلیہ میں خالی آسامیاں پر کر دی جائیں تو ایک سے دو سال کے اندر ملک بھر میں تمام زیر التواء مقدمات ختم ہو جائیں گے، وزیراعظم عمران خان نے ججز کی کمی دور کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، تاہم تاحال یہ کمی پوری نہیں ہوسکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ2019ء میں زیر التواء مقدمات کی تعداد18لاکھ تھی جبکہ2020میںزیر التواء مقدمات کی تعداد20لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ عدلیہ نے ججز کی کمی کے باوجود زیر التواء مقدمات کیسز کو نمٹانے میںخاطر خواہ کام کیا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وسائل کی کمی کے باعث فراہمی انصاف میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے معزز ججز اس کمی کا بر ملا اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومتی سطح پر ججز کی کمی کو دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دے رہی ہے۔اگر بروقت اس طرف توجہ نہ دی گئی تو زیر التواء مقدمات کا حجم ہوشربا حد تک بڑھ سکتا ہے، اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اعلیٰ عدلیہ نظام عدل میں جمہوری اقدار کی پاسداری کیلئے عزائم کا اظہار کر رہی ہے حکومتی سطح پر بھی اس کا اظہار ہونا چاہیئے تاکہ معاشرے کے تمام افراد کو فوری اور آسان انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟