تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح وشام ابھی

آپ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے، تازہ ترین خبر یہ ہے کہ حکومت نے کہا ہے جنوری میں گیس کا کوئی بحران نہیں آرہا ہے۔ ادھر گزشتہ روز وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ گیس پر پہلا حق صوبے کا ہے،کم پریشر کا مسئلہ حل کیا جائے۔ موصوف نے ابھی حال ہی میں اس نئی پائپ لائن کا افتتاح بھی کیا تھا جس کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ بڑی قطر کے اس پائپ لائن کی وجہ سے پشاور میں گیس پریشر کا مسئلہ حل ہونے جارہا ہے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ، پریشر کا مسئلہ حل تو کیا ہوتا، ہفتہ کے روز پشاور کے بیشتر علاقوں میں پورا دن گیس تقریباً ناپید کے الفاظ کے تابع رہی اور وہ جو وزیراعلیٰ سے بڑی قطر کے پائپ لائن کا افتتاح کروایا گیا اس کی اصل صورتحال بالکل ان سیاسی وارداتوں کی طرح لگنے لگی تھی جن کے بارے میں اخبارات میں ایسی خبریں سامنے آتی رہی ہیں کہ فلاں علاقے میں اتنے بستروں کے ہسپتال کا افتتاح کر دیا گیا ہے، ان افتتاہی تقاریب کا بڑا چرچا بھی کیا جاتا ہے اور مہمان خصوصی کی رخصتی کے بعد وہ جو ڈھونگ رچایا گیا ہوتا تھا اس کی قلعی بھی میڈیا پر کھول دی جاتی تھی یعنی بالکل فلمی یا ٹی وی ڈراموں کے سے انداز میں مصنوعی طور پر ہسپتال کے نہ صرف بسترے اور دیگر ساز وسامان لا کر لگا دیا جاتا تھا بلکہ مریض بھی مصنوعی (گویا ایکٹر) ہوتے تھے، عملہ بھی جھوٹ موٹ کا یعنی وہ جو بھارتی فلم شہنشاہ کے ایک منظر میں چند ہی لمحوں میں ایک گھریلو سیٹ کو ہسپتال کے منظر میں تبدیل کر لیا جاتا ہے اسی طرح ہمیں تو یہی شک پڑ رہا ہے کہ جس بڑے قطر کے پائپ لائن کا افتتاح جناب وزیراعلیٰ سے کرایا گیا وہ بھی کوئی ڈرامہ ہی تھا تبھی تو 18دسمبر کے اخبارات میں سپرلیڈ کے طور پر جناب وزیراعلیٰ نے اپنے بیان میںگیس پر پہلا حق صوبے کا ہے جیسے الفاظ استعمال کئے۔ حالانکہ اس سے بھی چند روز پہلے خود انہوں نے ہی بڑے قطر کے پائپ لائن کا بہ نفس نفیس افتتاح فرماتے ہوئے یقینا اس بات پر اظہار اطمینان بھی کیا ہوگا کہ چلو پشاور کے جو صوبے کا دارالحکومت بھی ہے عوام کا یہ دیرینہ مسئلہ حل ہوہی گیا ہے تاہم اب جو اپنے ہی محولہ اعلان کے بعد انہیں ایک بار پھر گیس پریشر کی کمی دور کرنے کی ہدایت کی ہے تو انہوں نے متعلقہ حکام سے اتنا پوچھنے کی زحمت کی ہے کہ بھلے لوگویہ جو بڑے سائز کے پائپ لائن کا افتتاح مجھ سے کروایا گیا تھا، اس کے بعد گیس کی پھر شکایت کیوں مل رہی ہے؟ داغ دہلوی نے یہی تو کہا تھا کہ
اُدھر تو کوئی نہیں جس سے آپ ہیں مصروف
ادھر کو دیکھئے ہم عرض حال کرتے ہیں
تو حضور ذرا معلوم تو فرمایئے نا کہ آپ سے بڑے قطر کے پائپ لائن کا افتتاح کروانے کے باوجود بھی اگر گیس نہیں آرہی اور گھریلو صارفین تک کو چھوڑیئے مساجد میں وضو کیلئے بھی اگر گرم پانی دستیاب نہیں تو پھر کوئی کہاں جائے؟ اب خدارا آپ یہ مشورہ اس فرانسیسی شہزادی کی طرح ہمیں نہ دیں کہ اگر روٹی نہیں ملتی تو یہ شور مچانے والے کیک پیسٹری کیوں نہیں کھالیتے یعنی قدرتی گیس جس پر آئین کی رو سے پہلا حق صوبے کے عوام کا ہے اور جس کی خود آپ بھی تصدیق فرما رہے ہیں یوں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ اگر گیس پریشر میں کمی ہے تو لوگ سلنڈر کیوں استعمال نہیں کرتے۔ بجا فرمائیں گے آپ اگر ایسا کچھ مشورہ دیدیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اب تو اس کم بخت سلنڈر کی قیمتوں کو بھی پر لگ چکے ہیں اور تازہ خبر یہ ہے کہ گیس سلنڈر کی قیمت پہلے 280پھر850اور اب 1800 ہوگئی ہے۔ دکانداروں کا مؤقف ہے کہ گیس پلانٹ سے ڈیمانڈ کے مطابق آکسیجن سلنڈرنہ ملنے کی وجہ سے قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ ادھر صورتحال میں ایک اور ڈرامائی تبدیلی کے اشارے مل رہے ہیں یعنی اب سی این جی سٹیشنز کو بھی ہفتے کے روز گیس نہیں ملے گی حالانکہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ سی این جی ایسوسی ایشن نے گزشتہ روز مبینہ طورپر ان سٹیشنز پر بے جا چھاپوں اور گرفتاریوں کیخلاف احتجاج کا ڈول ڈالا، ایسوسی ایشن نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ حکومت سی این جی صنعت کو تباہ کر رہی ہے اور اگر ہفتہ کے روز انہیں گیس بھی فراہم نہیں کی جائے گی تو خدشہ ہے کہ جمعہ کے روز لوگ گاڑیوں میںاضافی گیس بھرنے کیلئے لمبی لمبی قطاریں بنا کر بلکہ ممکن ہے کہ مہنگے داموں بھی سی این جی خریدنے پر مجبور ہو جائیں۔ ایسی صورتحال میںکم ازکم رکشے تو آدھے سے زیادہ رکنے پر مجبور ہوں گے کہ ان میں تو چھوٹے چھوٹے سلنڈر ہی نصب ہوتے ہیں اور نتیجہ لوگوں کی آمد ورفت بری طرح متاثر ہونے کے علاوہ کرائے بھی بڑھ جائیں گے یعنی غیرضروری مہنگائی عوام پر تھوپی جائے گی تو پھر لوگ کیا کریں گے؟ اگرچہ اس کا بھی حل وزیراعظم نے اپنے تازہ انٹرویومیں اینکرپرسن جہانزیب کے ایک سوال میںبتایا ہے گویا لوگ کورونا سے اتنے نہیں مریں گے جتنے کہ ۔۔
بقول علامہ اقبال
خلق خدا کی گھات میں رند وفقیہ ومیر وپیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح وشام ابھی

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو