مشرقیات

صدر الدین محمد بن فخر الملک بن نظام الملک سنجر کاوزیر تھا۔ اس نے مدرسہ نظامیہ بغداد کی صدر مدرسی کے لئے امام غزالی کو ایک خط لکھا۔ دربار خلافت سے بھی نظامیہ کے درس کے لئے دعوت آئی تھی اور اس دعوت پر علاوہ خلیفہ بغداد مستظہر باللہ کے تمام ارکان خلافت کے دستخط تھے۔ امام صاحب نے ان خطوط و فرامین کے جواب میں ایک طویل خط لکھا اور بغداد نہ آنے کے متعدد عذر لکھے جن میں دو عذریہ بھی تھے کہ موجودہ ڈیڑھ سو طلباء کو جو مصروف تحصیل ہیں’ بغداد جانے میں زحمت ہوگی۔ میں نے عہد کیاہے کہ کبھی مناظرہ و مباحثہ نہ کروں گا اور بغداد میں مباحثہ کے بغیر چارہ نہیں۔ اس کے سوا دربار خلافت میں سلام کے لئے حاضر ہونا ہوگا اور میں اس کو گوارا نہیں کرسکتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مشاہرہ اور وظیفہ قبول نہیں کرسکتا اور بغداد میںمیری کوئی ایسی جائیداد نہیں جس سے میرا گزارہ ہوسکے۔ غرض امام صاحب نے صاف انکار کردیا۔علمائے کرام وظائف کو اس بناپر جائز سمجھتے تھے کہ قرون اولیٰ صحابہ کرام اور تابعین کو سلطنت کی طرف سے وظائف ملتے تھے اوروہ لوگ قبول کرتے تھے۔ امام صاحب اس استدلال کو نقل کرکے لکھتے ہیں کہ یہ قیاس غلط ہے۔ اولاً تو اس زمانے میں محاصل سلطنت ایسے مشتبہ نہ تھے۔ دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ اس زمانے میں امراء اور حکام علماء کی رضا جوئی کے حاجت مند تھے۔ خود ان کی طرف سے درخواست اور آرزو ہوتی تھی اور علماء میں سے کوئی شخص وظیفہ قبول کرلیتا تھاتو امراء خود ممنون ہوتے تھے۔ اس وجہ سے صحابہ کرام و تابعین کو باوجود وظیفہ خوری کے امر حق کے اظہار میں کبھی باک نہ ہوتا تھا۔ وہ بھرے دربار میں خلفائے بنی امیہ کو زچروتوبیخ کرتے تھے اور خلفاء ان کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے تھے۔بخلاف اس کے آج کل (یعنی پانچویں صدی ہجری میں) وظائف کے حاصل کرنے کے لئے یہ امور اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ اول دربار کی آمد و رفت’ دوم دعا و ثنائی’ سوم بادشاہوں کے اغراض و مطالب میں اعانت’ چہارم جلوس وغیرہ میںشرکت’ جانثاری کا اظہار’ سلاطین کے عیوب کی پردہ پوشی۔ یہ شرطیں گنوا کرامام صاحب لکھتے ہیں ‘ اگر ان میںسے ایک شرط کی تعمیل رہ جائے تو سلاطین ایک درہم بھی نہ دیں گے۔ گو مولوی صاحب کا رتبہ امام شافعی کے برابر ہو۔یہ امام غزالی کی کمال خودداری کا ایک نمونہ تھا۔
ابو العتاہیہ مہدی کے دربار کا ایک نامور شاعر تھا۔ خلیفہ نے ایک مرتبہ ایک قصیدہ کی فرمائش کی۔ ابو العتاہیہ نے صاف انکار کردیا۔ اس پر خلیفہ نے ناراض ہو کر قید خانہ میں ڈال دیا۔ وہاں ایک اور قیدی اس جرم میں تھا کہ وہ خلیفہ کو عیسیٰ ابن زید بن حارثہ کا پتہ نہیں بتاتا تھا۔ ابو العتاہیہ نے جواب دیا میں قید خانہ میں ہوں’ مجھے کیا معلوم کہ اب وہ کہاں ہیں اور وہ اگر میرے کپڑوں اور میری کھال کے اندر بھی چھپے ہوتے تو بھی میں اس بے گناہ کا خون اپنی گردن پر نہ لیتا۔ چنانچہ خلیفہ کے حکم سے اس کی گردن اڑادی گئی’ لیکن اس نے پتہ نہ بتایا۔ (مشاہیر الاسلام)

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟