منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک اور نئی بحث چل پڑی ہے کہ جلسے جلوس میں اپوزیشن کے مطالبات کا مخاطب کون ہوتا ہے؟ فرد جرم کا ہدف تو حکومت ہوتی ہے مگر حکومت ہٹانے کیلئے روئے سخن کدھر ہوتا ہے؟ وزیراعظم عمران خان نے ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن فوج سے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کا مطالبہ کر رہی ہے، یہ آئین سے غداری ہے اور اس پر آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ اس پر اپوزیشن راہنما احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے آرمی چیف سے حکومت گرانے کا مطالبہ نہیں کیا ہم انہیںعوام کی طاقت سے گھر بھیجیں گے۔ احسن اقبال کی تردید اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کو بے اختیار قرار دیتی ہیں یعنی ایک ایسا شخص جو غیرمتعلق ہے جو آنے پر قادر تھا نہ جانے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس لئے اپوزیشن جماعتیں پہلے بھی یہی کہتی چلی آرہی ہیں کہ آپ سے این آر او مانگتا کون ہے؟ گویا کہ اپوزیشن یہ تسلیم کر چکی ہے کہ حکومت ایک زمینی مخلوق ہے اور اس کے پیچھے ایک خلائی مخلوق موجود ہے۔ حکومت پردے کے آگے اور اصل طاقت پردے کے پیچھے ہے۔ اس لئے اپوزیشن جب حکومت کو کشمکش اور طاقت کے کھیل سے مائنس کرتے ہیں تو لامحالہ ایک تیسری طاقت پلس ہوتی ہے اور وہ طاقت فوج ہی ہے۔ پی ڈی ایم نے اب تک تمام جلسوں میں اپنے مطالبات عمران خان کے آگے پیش نہیں کئے۔ تو پھر ان مطالبات کا مرکز کون تھا۔ امریکہ، برطانیہ یا کسی اور ملک کا سفیر؟ سپیکر اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ؟ چیف جسٹس آف پاکستان؟ آئی جی اسلام آباد؟ آخر کوئی تو ہے جس سے اپوزیشن جماعتیں بڑے بڑے جلسے منعقد کرکے سٹیج اور کنٹینر سجا کر، لاکھو ں اور کروڑوں روپے خرچ کرکے اور کورونا کی وباء کو نظرانداز کر کے انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے باجماعت، باادب باملاحظہ، ہوشیار ہو کر عمران خان کی حکومت ہٹانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ وہ کون ہے جس کے آگے یہ مطالبہ دہرایا جاتا ہے؟ اگر مخاطب پارلیمنٹ ہوتی تو اس کا آسان اور سادہ طریقہ کار یہ تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں کی جاتیں اور ارکان اسمبلی سے رابطے کئے جاتے۔ اس میں اپوزیشن کی ناکامی کا امکان اگرچہ زیادہ تھا مگر کامیابی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کچھ ہی عرصہ پہلے حکومت کے ایک اتحادی اختر مینگل حکومتی صفوں کو الوداع کہہ کر اپوزیشن کیمپ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ق لیگ جیسے حکومتی اتحادی بھی ہمہ وقت نالاں، بیزار اور اکھڑے اکھڑے سے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ فطری طور پر اسی شاخ پر گھونسلہ بنانے کے عادی ہیں جس پر پی ڈی ایم بیٹھی ہے گویاکہ ان کے دل لکیر کی دوسری جانب دھڑکتے ہیں صرف نظریۂ ضرورت نے انہیں حکومت کا اتحادی بنا رکھا ہے۔ وزارتوں سے محروم حکومتی ارکان ہر حکومت کا نرم پیٹ ہوتے ہیں۔ عوام کی ناراضگی اور غم وغصے کے باعث یہ ارکان اپوزیشن میں کشش محسوس کرتے ہیں۔ باقی مالی وسائل کی اپوزیشن کے پاس کمی ہے نہ تجربے کا فقدان ہے۔ دہائیوں پر محیط سیاست میں یہ حکمت کاری سے ترازو کے پلڑوں کو اوپر نیچے کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ سب محرکات اور عوامل حکومت تبدیلی کے جمہوری اور پارلیمانی عمل کو آسان بنا سکتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اپوزیشن کو اپنے زورِ بازو یا پارلیمنٹ اور ارکان کی طاقت پر اعتماد نہیں کہ وہ آئینی اور قانونی راستہ اپنانے کی بجائے حکومت گرانے کیلئے نام لیکر فوجی اداروں کے سربراہوں کو پکار رہے ہیں۔ گوکہ نام لینے کا سلسلہ کچھ تھم گیا ہے مگر پکارنے کا انداز اور طورطریقہ وہی ہے۔ سچ تو یہ کہ پی ڈی ایم کا لہجہ اور انداز ذرا مختلف تو ہو سکتا ہے مگر اس کے مقصد کا مدعا وہی ہے جو ماضی سے تعلق رکھتا ہے جب راولپنڈی کی دیواروں پر آرمی چیف کی تصویروں والے پوسٹر ان اشعار سے مزین ہوتے تھے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے
ہر دور میں جیسی تیسی جمہوری حکومتوں کیخلاف اس مطالبے کا انداز بدلتا رہا۔ کبھی یہ ”راحیل شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں” تو کبھی کسی اور جملے اور مصرعے سے عیاں ہوتا تھا۔ ان پوسٹروں اور بینروں کے پیچھے کسی نہ کسی سیاسی شخصیت اور گروپ کی خواہشات بھی جھلکتی رہتی تھیں اور یہ خوشی اس وقت چھپائے نہیں چھپتی تھی جب کسی جمہوری حکومت کیخلاف ”حشر” برپا ہو جاتا تھا تو اس سیاسی گروپ کے لوگ مٹھائی کے ٹوکرے لئے چوکوں اور بازاروں میں نکل آتے تھے۔ نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کا یہی انجام کرتے تھے اب وہ دونوں ملکر عمران خان کو اس انجام سے دوچار کر نا چاہتے ہیں۔ فرض کریں ان کے مطالبات کو مانتے ہوئے عمران خان حکومت ”بارہ اکتوبر” کا شکار ہوجاتی ہے۔ وہی بارہ اکتوبر جب نوازشریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا تھا تو پی ڈی ایم حسب روایت مٹھائی کے ٹوکروں کیساتھ سڑکوں پر نکل آئے گا۔ بارہ اکتوبر کو محترمہ بینظیر بھٹو نے عالمی میڈیا کو اپنا مؤقف دیتے ہوئے کہا تھا کہ نوازشریف کی حکومت تو جمہوری نہیں فاشسٹ تھی۔ فوج نے اس سے قوم کی جان چھڑائی ہے۔ کیا بلاول اور مریم کا مؤقف اس سے مختلف ہوگا؟۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو