درختوں کی کمی چڑیوں کی بقا

پشاور میں درختوں کی کمی،چڑیوں کی بقا کو خطرہ

اتوار کے روز دنیا بھر میں چڑیوں کا عالمی دن منایا گیا ہے پاکستان میں مختلف قسم کے پرندوں کی 687سے زائد نسلیں پائی جاتی ہیں جن میں سے چڑیوں سمیت 73 سے زائد نسلوں کے مخدوش ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے پشاور اور صوبے کے دیگر بڑے شہروں میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی، سایہ دار اور پھل دار درختوں کی کاشت میں کمی اور موجوددرختوں کی بے دریغ کٹائی ، موبائل فونز کے سگنل ٹاورز سے نکلنے والی زہریلی شعاعوں، کچے گھروں کی بجائے پختہ تعمیرات میں اضافہ اور فصلوں پر چھڑکی جانے والی زہریلی ادویات کی وجہ سے چڑیاں ناپید ہوگئی ہیں اور شہروں میں رہنے والی نئی نسل چڑیوں سے زیادہ واقف نہیں ہے جبکہ زرعی علاقوں میں بھی چڑیوں کو اپنی بقا کے سلسلے میں گذشتہ20سالوں سے ایک آزمائش کا سامنا ہے 10سال قبل تک پشاور میں بھی درختوں کی بہتات تھی جہاں پر چڑیوں کے گھونسلے تھے اور بڑے باغات وغیرہ میں بھی مصنوعی گھونسلے نصب تھے شہر میں گھروں میں صحن اور چھتوں پر چڑیوں کیلئے دانا پانی کا مستقل انتظام تھا کچے مکانات میں تو کمروں کے اندر بھی ان کے گھونسلے تھے اس طرح چاروں موسموں میں چڑیوں کے غول صبح اور شام ہوا میں اڑتے اور کسی گھر کی چھت یا صحن میں اتر جاتے 1990سے پہلے کے پیدا ہونے والے زیادہ تر لوگوں کا بچپن ان چڑیوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں گزرا ہے پیتل کے برتن میں پرندوں کیلئے پانی رکھنا اب بھی شہر میں بعض گھروں میں روایت ہے لیکن چڑیوں کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے کچھ عرصہ قبل تک چڑیوں کو صرف جال پھینکنے والے شکاریوں سے خطرہ تھا اب اس کی نسل مکمل طور پر مخدوش ہورہی ہے جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے سماجی کارکن امتیاز علی کے مطابق صبح کے وقت چڑیوں کا شور معدوم ہوگیا ہے اور یہ نسل بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہورہی ہے جس کے نتیجے میں ایسے خطرناک حشرات پھیل رہے ہیں جس کے تدارک کیلئے چڑیوں کی افزائش انتہائی ضروری ہے انفرادی طور پر گھروں میں چھوٹے گھڑے لگاکر گھونسلے بنائے جاسکتے ہیں انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ چڑیوں کی نسل کو بچانے کیلئے شہر کے تمام درختوں پر مصنوعی گھونسلوں کا بندوبست کیا جائے موسم کے لحاظ سے منصوبہ بندی کے ساتھ بی آر ٹی اور اوور ہیڈ برجز کے نیچے بھی چڑیوں کیلئے رہائش کا انتظام کیا جاسکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  قبائلی اضلاع کے مسائل حل کرنے کیلئے جرگے بلا رہے ہیں، گنڈاپور