دہشتگرد حملوں میں 28 ہزار افراد

دہشتگرد حملوں میں، 2004 سے اب تک 28ہزار 249 افراد شہید ہوئے


امن کے قیام کیلئے سال 2004 سے پورے ملک میں ابتک 28249 سویلین و ملٹری جوان اور آفیسران
شہید ہوئے جن میں زیادہ تر قبائلی شامل ہیں، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ خیبر پختونخوا نے رپورٹ جاری کر دی ،ملکی خزانے کو 150 ارب ڈالرز سے بھی زائد کا مالی نقصان ہوا ، 30 لاکھ عوام نے عارضی نقل مکانی کی ، 473 سکول تباہ ہو ئے ، 6 کروڑ 20 لاکھ پاکستانی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر نے پر مجبور ہو گئے ،ضم علاقے دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہو ئے ہیں اس لئے حکومت نے قبائلی عوام کے ازالے کیلئے منصوبہ بندی شروع کی ہے اور تین سالوں میں یہاں 108 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی ہے، سب ڈویژنز میں 11 ارب 98 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ، یہاں کے تمام لائن ڈیپارٹمنٹس کی توسیع کیلئے 15 ہزار 997 پوزیشنز کی منظوری دی گئی، تمام ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز فعال بنا دیئے ، ان علاقوں میں بلدیاتی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہو ئے ، ان علاقوں میں تعلیمی صورتحال اب بھی گھمبیر ہے اور صرف چالیس فیصد بچے سکول جاتے ہیں ،حکومت نے یہاں کے سکولوں کی دوبارہ بحالی پر توجہ دیتے ہوئے ضم اضلاع کے ساتھ سب ڈویژن وزیر بنوں کے سرکاری سکولوں میں 115 اضافی کمرے تعمیر کئے ، 175 کمروں کی مرمت ، 60 سکولوں کی چار دیواری ، 233 سکولوں میں لیٹرین کی تعمیر اور ایک ہائی سکول کو ہائر سیکنڈری میں اپ گریڈ کیا گیا ،ان سکولوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی ممکن بنائی اور مختلف کلاسز کے طلبہ کو 25 ہزار 928 مفت کتابیں اور سکول بستہ فراہم کئے ، 143کھیل کے میدان بھی آبادکرائے گئے ، صحت سہولت پروگرام کے تحت 400 سرکاری وپرائیوٹ ہسپتالوں میں ایک لاکھ 29 ہزار 450 مریض مستفید ہو ئے ہیں،سب ڈویژن وزیر بنوں میں 570 افراد کو مفت علاج کی سہولت فراہم کی جا چکی ہے ، انصاف روز گار سکیم کے تحت ضم اضلاع میں چار ہزار 573 افراد مستفید ہو ئے ، اخوت مائیکرو فنانس سکیم کے تحت 17 ہزار 27 افراد کو بلا سود قرضے دیئے گئے ،کامیاب جوان پروگرام سے 86 افراد مستفید ہو ئے، ضم اضلاع میں 170 بی ایچ یوز ، 9 آر ایچ ایز تعمیر کیے ، زراعت کے میدان میں ترقی کیلئے صوبائی حکومت نے انقلابی اقدامات اُٹھا ئے یہ علاقے چونکہ زیادہ تر پہاڑی ہیں یہاں پر فصلیں اور باغات کیلئے زمین ہموار بنانے پر پوری توجہ دی گئی ، صوبے کے چھ سب ڈویژنز میں سڑکوں پر دو ہزار 940 ملین ، تعلیم پر 1304 ملین ، زراعت ایک ہزار 36 ملین ، پینے کے پانی کیلئے 992 ملین ، صحت کے شعبے پر 949 ملین روپے ، پانی کے منصوبوں کیلئے 822 ملین روپے ، ریلیف اور آباد کاری پر 488 ملین روپے ، انرجی پاور پر 322 ملین روپے ، کھیل ، یوتھ افیئرز ، ٹورازم ، کلچر اور آڑکیالوجی پر 332 ملین روپے ، گھروں کی تعمیر کیلئے 326 ملین روپے ، لوکل گورنمنٹ کیلئے 324 ملین روپے ، ہائیر ایجوکیشن کیلئے 297 ملین روپے ، ملٹی سیکٹرل ڈیویلپمنٹ پر 295 ملین روپے ، رول آف لاء کیلئے 292 ملین روپے سوشل ویلفیئر کیلئے 253 ملین روپے جبکہ دیگر پر 951 ملین روپے خرچ کئے گئے ہیں تاہم قبائلی عمائدین نے اس پر تحفظات اُٹھائے ہیں کہ فاٹا کے نام پر اربوں روپے مختص کئے جاتے جو کہ بیورو کریٹس ، پولیٹیکل ایجنٹس اور قبائلی مالکانان ایک دوسرے کو نوازتے تھے اور یہ رقم کاغذوں میں تو خرچ ہو ئی ہے لیکن عملی طور پر نہیں ۔

مزید پڑھیں:  خیبر پختونخوا میں 90 فیصد ہاﺅسنگ سوسائٹیزغیر قانونی ہیں، محکمہ بلدیات