محکمہ تعلیم کی مجوزہ پالیسی کے ممکنہ نقصانات

خیبرپختونخوا کے محکمہ ابتدائی تعلیم نے رواں تعلیمی سال جماعت اول سے ساتویں جماعت تک کے تمام طلبہ کو اگلی کلاسز میں اپ گریڈ کرنے کی تجویز پر غور شروع کر دیا ہے، اس حوالے سے ٹیچرز اور متعلقہ سکولوں کی انتظامیہ کو پرائمری اور مڈل سکولوں کے تمام طلبہ کو پاس کرنے کے لئے معائنہ رپورٹس ارسال کرنے کا ہدف دیا گیا ہے جس کی روشنی میں میٹرک کے امتحانات کے بعد نتائج جاری کرنے کا امکان ہے، بظاہر اس پالیسی سے طلبہ کے لئے اطمینان کا باعث ہے لیکن دیکھا جائے تو اس کے نقصانات بہت دور رس مرتب ہوں گے، اس طرح کی پالیسی سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی لاگو کی گئی تھی جس کا منفی نتیجہ یہ نکلا تھا کہ بچوں نے محنت کرنا چھوڑ دی تھی کیونکہ جب انہیں یہ اطمینان تھا کہ وہ بغیر پڑھے اگلی کلاس میں چلے جائیں گے تو ان کی نظر میں محنت کی ضرورت نہیں تھی، اب جب کہ خیبر پختونخوا میں دوبارہ ایسی پالیسی لانے پر غور کیا جا رہا ہے تو متعلقہ حکام کو ماضی میں اس پالیسی کے نقصانات کا ضرور جائزہ لینا چاہیے کیوں کہ اس پالیسی سے ہماری ابتدائی تعلیم کا معیار مزید گرے گا جو پہلے ہی غیر تسلی بخش ہے اور اس کے بچوں کے مستقبل پر بھی سنگین اثرات مرتب ہوں گے، عمارت تبھی مضبوط ہوتی ہے جب اس کی بنیاد مضبوط ہو، اب اگر بچے ابتدائی تعلیم کے مرحلے میں محنت نہیں کریں گے تو میڑک، کالج اور یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم کے حصول میں ان کو مشکلات کا سامنا ہو گا اور اس کا اثر ان کی عملی زندگی پر بھی مرتب ہوگا۔
مجوزہ پالیسی کا ایک نقصان یہ بھی ہوگا کہ اساتذہ بھی بچوںکی تدریس میں دلچسپی لینا چھوڑ دیں گے،انہیں یہ پتہ ہوگا کہ بچے نے جب فیل ہی نہیں ہونا تو ان سے کون پوچھے گا، دراصل بچوں کے پاس فیل ہونے اور پوزیشن حاصل کرنے میں استاد کی کارکردگی کو جانچنے کا ایک ذریعے بھی ہے، اسی طرح اس پالیسی سے والدین بھی بچوں کی تعلیم پر توجہ دینا کم کردیں گے۔یوں ابتدائی تعلیم ایک حساس معاملہ ہے اور اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے۔
مساجد میں پولیس اہلکاروں کی تعیناتی احسن اقدام
پشاور میں رمضان المبارک کے دوران ہر مسجد پر دو پولیس اہلکار تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، سکیورٹی پلان کے تحت ساڑھے پانچ سو سے زائد مساجد پر مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات ہوں گے، حالیہ دنوں میں دہشت گردی کے واقعات کے تناطر میں انتظامیہ کا یہ فیصلہ اہمیت کا حامل ہے جس سے امن و امان کا قیام یقینی بنایا جا سکے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ دیگر مہینوں کی نسبت رمضان المبارک کے دوران مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے،اس لئے خدشہ ہے کہ شرپسند اس کا فائدہ اٹھا کر ناخوشگوار واقعہ کروا سکتے ہیں، چنانچہ تراویح کے دوران ہر مسجد میں نماز تراویح کی ادائیگی کے وقت دو پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کا فیصلہ خوش آئند ہے، اس اقدام سے لوگوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہو گا وہ بلا خوف و خطر نماز تراویح اداکر سکیں گے ، چونکہ سرکار کے پاس پولیس نفری کی کمی ہے، اس لئے مساجد کی انتظامیہ سے بھی کہا جائے کہ وہ اپنے طور پر مساجد کی سکیورٹی کا بندوبست کریں ، اس بندوبست کے بعد توقع کی جا سکتی ہے کہ شرپسند اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے، شہریوں کو بھی چاہیے کہ وہ مساجد کی سکیورٹی کے معاملات پر پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں تاکہ ماہ مقدس میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
رمضان میں لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کیا جائے
رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے اور ساتھ ہی صوبائی دارالحکومت میں بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے حالت یہ ہے کہ پیسکو حکام کی جانب سے اندرون شہر خصوصاً رحمان بابا گرڈ سٹیشن سے ہفتہ میں تین بار دس دس گھنٹے طویل لوشیڈنگ کا عذاب عوام کو جھیلنا پڑ رہا ہے اور یہ سلسلہ کوئی ایک دو روز میں شروع نہیں ہوا ہے بلکہ گزشتہ سال نومبر سے یہ سلسلہ اسی طرح چل رہا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یکم اپریل کو کو ڈسٹرکٹ میئر پشاور کے دفتر میں منعقدہ اجلاس کے دوران چیف انجینئر آپریشن پیسکو اسلم گنڈاپور نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اب لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی لیکن یہ یقین دہانی کسی کام نہ آئی اور لوڈشیڈنگ کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گرمی کی شدت بھی بڑھنا شروع ہو گئی ہے پیسکو حکام کو چاہئے کہ وہ لوڈشیڈنگ جیسے مسئلے کا کوئی سنجیدہ حل نکالیں تاکہ عوام ماہ مبارک میں اپنی عبادات کی جانب توجہ دے سکیں، اتنی طویل لوشیڈنگ کی وجہ سے کئی مساجد میں پانی کا مسئلہ بھی بڑھ جاتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بجلی کی کمی ہے اور لوڈشیڈنگ محکمہ کی مجبوری ہے مگر پیسکو حکام کو چاہئے کہ وہ دس دس گھنٹے کی طویل لوشیڈنگ سے گریز کرے کیونکہ عوام پہلے ہی مہنگائی و دیگر مسائل کی وجہ سے تنگ آ گئے ہیں۔ اگر انہیں اس جانب سے بھی ریلیف نہ دیا گیا تو پھر معاملات احتجاج کی صورتحال اختیار کر جائیں گے۔ پیسکو حکام کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرے اگر لوڈشیڈنگ ضروری ہے تو اس کیلئے کوئی ایسا پروگرام ترتیب دیں کہ سحری اور افطار کے وقت پشاور کے عوام مشکلات سے بچے رہیں۔

مزید پڑھیں:  بزرگوں اور ضعیفوں کی نفسیاتی اذیت