خار مغیلاں

گزشتہ عام انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان وزیر اعظم بنے تو اگست2018 میں روزنامہ مشرق میں شائع شدہ ایک کالم میں میں نے عمران خان سے کچھ متعین سوالات کئے تھے۔جن میں سے کچھ یہ تھے۔”کیا آپ شریف برادران سے زیادہ سرمایہ دار ہیں ؟ کیا آپ نے شریف برادران کی طرح گزشتہ تیس سال میں اپنی مرضی کی بیوروکریسی بھرتی کی ہے جو ترقیاں پاکر گریڈ20اور اس کے اوپر پہنچ چکی ہے اور اس نے آپ کا ساتھ دینے کی قسم کھائی ہوئی ہے ؟ اور آپ فرشتوں کی خصوصی ہمدردی کے مستحق ہیں ؟ کیا آپ عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کا ہنر جانتے ہیں ؟
آئیے میں آپ کو بتادوں کہ عوام نے کن دو توقعات پر آپ کو ووٹ دئیے ہیں۔ وہ دو توقعات ہیں فوری اور سستا انصاف اور کرپشن کا خاتمہ ‘کروڑوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لانا موجودہ اقتصادی صورت حال میں ناممکن ہے۔آپ اپنی سی کوشش کر سکتے ہیںاور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو وسعت دے کر صورت حال میں کچھ بہتری لائی جا سکتی ہے۔لیکن مکمل کنٹرول ؟ ۔۔۔ ہنوز دہلی دور است ۔ اس طرح آپ کے صرف دو وعدے ممکن العمل ہیں۔ پہلا انصاف دلانا اور دوسرا کرپشن کا خاتمہ”۔
عمران خان کی رخصتی کے بعد یہی سوالات پی ڈی ایم والوں سے کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔کہ اگر پی ڈی ایم والے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر خوشیاں منانے سے فارغ ہو گئے ہوں اور شہبازشریف صاحب بھی وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھنے کی پریکٹس کر چکے ہوں تو ذرا مندرجہ ذیل باتوں پر ضرور غور فرمائیے۔
کیا آپ ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے کا نیک کام فوری طور پر شروع کررہے ہیں۔یا چند دن تک انتظار کرکے وزارتوں کی ریوڑیاں حسب خواہش نہ ملنے پر یہ جہاد شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔کیا بلوچ قوم پرستوں اور ایم کیو ایم کے مطالبات کا سیاسی بوجھ اٹھانا کسی بھی مین سٹریم سیاسی پارٹی کیلئے ممکن ہے ؟ کیا مذہبی سیاسی پارٹیوں کو صرف مونگ پھلیوں پر راضی کیا جا سکے گا جبکہ وہ اب اپنی سٹریٹ پاور کی بدولت ڈھائی فیصد زکواة تو کیا دس فیصد عشر پر بھی راضی نہیں ہونگے اور برابر کا حصہ مانگ رہی ہیں۔ کیا آپ معیشت کو صحیح ٹریک پر لانے کیلئے کوئی متبادل منصوبہ رکھتے ہیں ؟ اگر نہیں اور موجودہ معاشی پالیسیاں جاری رکھنا ہی پاکستان کے پاس واحد آپشن ہے تو پھر عمران خان ہی کو معیشت کی تباہی کا ذمہ دار ٹھرانا کہاں کا انصاف ہے ؟ جب کہ مہنگی بجلی و گیس ‘گرتی ہوئی ایکسپورٹ اور کئی دوسرے وجوہات کی بنا پر معیشت کئی دہائیوں سے رو بہ زوال ہے۔ اور ان گزشتہ دہائیوں میں آپ ہی حکمران تھے اور ہاں یاد رکھیں قوم آپ کو اسحاق ڈار والی مصنوعی اور غیر حقیقی معاشی پالیسیاں مزید چلانے کی اجازت نہیں دے گی اور نہ ڈالر کو مصنوعی طریقے سے نیچے لانے کی کاریگری کرنے دے گی۔جس کا آخری انجام پاکستان کا مکمل دیوالیہ ہونا ہے۔ کیا آپ ایک آزاد اور خود مختار ملک کی آزاد خارجہ پالیسی تبدیل کرکے اشتراکی نظاموں یا سرمایہ دارانہ نظاموں کے سرخیلوں کی گود میں بیٹھنا چاہتے ہیں ؟ اور یوکرین سے مستقبل قریب میں شروع ہونے والی تیسری جنگ عظیم کاحصہ بن کر عالم اسلام کی اکلوتی نیوکلیئر طاقت کو خلافت عثمانیہ کی طرح تباہ کروانے کا رسک لے سکتے ہیں ؟ پہلے ہی انہی سطور میں عرض کر چکا ہوں کہ ہماری بلکہ پورے عالم اسلام کی بقا مذکورہ دونوں نظاموں کی آپس کی ٹکرائو سے دور رہ کر ہی تعمیر نو اور ایک عظیم اسلامی مملکت قائم کرناہے۔ کیا آپ موروثی سیاست کی ٹوکری سر پر رکھ کر قوم سے کسی مزید تعاون کی امید کر رہے ہیں ؟ جب کہ قوم کو اب احساس ہو رہا ہے کہ مذہب ‘قومیت’ روٹی کپڑا مکان اور دوسر ے جعلی نعروں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنے بیٹوں ‘بھائیوں’بھانجوں ‘بھتیجوں حتیٰ کہ بیویوں ‘دامادوں اور سالیوں تک کو اقتدار میں لانے کا مشن پورا ہوتا ہے اور پارٹیوں کے قابل ترین افراد صرف بچی کچی روٹیاں توڑنے یا بے اختیار وزارتوں کی بد مزہ لسی پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔کیا مریم بی بی ‘حمزہ ‘ بلاول اور آصفہ بی بی کے ہوتے ہوئے اعتزازاحسن’رضا ربانی یا احسن اقبال جیسے قابل ترین لوگ زندگی کی آخری سانس تک کبھی وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ سکتے ہیں ؟ اگر نہیں تو یہ جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر خاندانی اقتدار قائم رکھنے کا مکروہ نظام ہے۔اور ذاتی مفادات اور طاقت کی دوڑ ہے۔ پی ڈی ایم کے ایک رہنما نے تو برسر عام کہا تھا کہ عمران خان کی”خزان” کے جانے کے بعد بہار آئے یا خزان ۔ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ کیا سیاست میں ایسی سوچ مناسب ہے ؟ یاد رکھیں کہ عمران خان میں اس پورے نظام کو نئے سرے سے للکارنے کی طاقت بھی ہے اور ہمت بھی کیونکہ پی ٹی آئی اب بھی پارلیمنٹ میں واحد بڑی پارٹی ہے اور عمران خان پلٹ کر وار کرنے کی ہمت اور طاقت بھی رکھتے ہیں۔اس لئے پی ڈی ایم کی نئی حکومت کو اپنی ذات اور پارٹی مفادات سے اوپر اٹھ کر پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے سخت محنت کرنا ہوگی۔ ورنہ چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے۔یا پھر بقول شاعر ”پھر وہی دشت نوردی ہوگی پھر وہی خار مغیلاں ہونگے ”۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟