اقتدار کی دنیا میں شہباز کی پہلی تنہا پرواز

پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوارمیاں شہباز شریف قومی اسمبلی سے 174ووٹ لے کرپاکستان کے تئیسویں وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد تحریک عدم اعتماد کو ایک تاریخی قدم قرار دیا ۔شہباز شریف اپنے خطاب میں امریکی خط کے حوالے سے پارلیمنٹ کی دفاع اور سلامتی سے متعلق کمیٹی میں خط پیش کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اگر ہماری تحریک میں کوئی بیرونی مداخلت پائی گئی تو میں ایک سیکنڈ میں مستعفی ہوجائوں گا۔ انہوں نے عام آدمی کی بہتری مزدوروں اور پنشنرز کی اجرتوں میں اضافے اور رمضان میں سستے آٹے کی فراہمی کا اعلان کیا ۔میاں شہباز شریف نوے کی دہائی میں اس وقت سیاسی منظر پر اُبھرے جب میاں نوازشریف وزیر اعظم پاکستان بنے ۔اس کے بعد وہ میاں نوازشریف کی سیاسی اور حکومتی سرگرمیوں میں ہاتھ بٹاتے نظر آنے لگے۔میاں نوازشریف کے دوسرے دور اقتدار میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔سیاست میں شہباز شریف کی شناخت ایک معتدل مزاج شخص کی رہی اور حکومتی ذمہ داریوں میں انہیں ایک اچھے منتظم کے طور جانا جانے لگا۔شہباز شریف نے ایک اچھے منتظم کی شناخت اپنے بعد کے تمام ادوار میں برقرار رکھی۔وہ بیوروکریسی پر گرفت قائم کرکے اسے عوام سے کام لینے کا گُر جان گئے اور اس کے اثرات پنجاب میں نظر بھی آتے رہے۔مسلم لیگ ن ابتدائے سفر میں پنجاب کے پاور بیس کے ساتھ دائیں بازو اور ہیئت مقتدرہ کی پسندیدہ جماعت کے طور پر جانی جاتی تھی مگر طاقت کی راہداریوں میں مسلم لیگ ن اور ہیئت مقتدرہ کے درمیان کھٹ پھٹ کا آغاز ہوگیا جو وقت کے ساتھ ساتھ کبھی بڑھتی اور کبھی کم ہو تی رہی ۔میاں نوازشریف ایک سخت گیر موقف رکھنے والی شخصیت سمجھے جاتے رہے مگر ان کے مقابل شہباز شریف کواعتدال پسند سمجھا جا تا رہا ۔اس حوالے سے ہئیت مقتدرہ میں ان کے لئے ہمیشہ ہمدردی کا گوشہ موجود رہا ۔ان کے لئے یہ دعوت ہمیشہ موجود رہی کہ وہ میاں نوازشریف سے اپنی راہیں جدا کرکے مسلم لیگ ن کی قیادت سنبھالیں تو راولپنڈی اسلام آباد کے درمیان زیادہ اچھا نباہ ہو سکتا ہے ۔جنرل پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد بھی یہ آپشن شہباز شریف کے سامنے رکھا گیا مگر انہوں نے نوازشریف سے اپنے راستے جدا کر نے سے انکا ر کیا یا نوازشریف کی طرف سے ان کے دل میں دبی خواہش کی کلی کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا گیا ۔ایک نہیں متعدد مواقع پروزارت عظمیٰ انہیں چھو کر گزرتی رہی ۔خود شہباز شریف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ الیکشن سے چند دن پہلے بھی انہیں وزرات عظمیٰ کی پیشکش ہوئی ۔ظاہر ہے یہ پیشکش مائنس نوازشریف ہوئی ہوگئی جبھی تو بات بننے نہیں پائی ۔اب شاید نوازشریف کے سامنے عمران خان کی صورت میں ایسی مستقل مشکل تھی کہ جس سے جان چھڑانے کے لئے انہیں اپنی زندگی میں یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا ۔ایسا نہیں میاں نوازشریف نے اپنی آنکھوں کے سامنے اور اپنے ہاتھوں سے کسی دوسرے کو وزیر اعظم نہ بنایا ہو۔عدالت سے نااہل ہونے کے بعد انہیں اپنے بعد کسی اور وزیر اعظم بنانے کی مجبوری درپیش تھی تو انہوں نے جھٹ سے لاہو ر سے اُڑنے والے اقتدار کے ہما کو کوہ مری کے شاہد خاقان عباسی کے کندھے پر بیٹھنے کا اشار ہ کیا ۔شاہد خاقان عباسی اور شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ میں بہت باریک سا فرق ہے۔شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ اور اختیار کو پارٹی پر اپنی گرفت کمزور ہونے کی عینک سے دیکھا جاتا رہا ہے۔طاقت اور سیاست کی دنیا میں یہ کھیل چلتے ہی رہتے ہیں ۔یوں بھی مشکل یہ تھی کہ مسلم لیگ ن کے نام سے ووٹ بینک تک سب کچھ نوازشریف سے منسوب تھا اور اس دیوار میں نقب لگانا ممکن ہی نہیں تھا اسی لئے شہباز شریف نے یہ بھاری پتھر اُٹھانے سے گریز میں ہی عافیت جانے رکھی۔بہر حال اب میاں شہباز شریف پی ڈی ایم کی جماعتوں کے مشترکہ وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں ۔ان کے سامنے معاشی اور سیاسی چیلنجز ہیں ۔ عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور جارحانہ انداز تو خطرے کی بیرونی پرت ہے مگر میاں نوازشریف کا حلقہ اثر بھی ان کے سامنے کچھ توقعات اور فرمائشوں کے ساتھ موجود ہوگا انہیں ان خواہشات اور ہئیت مقتدرہ کی تمنائوں میں توازن کا مشکل مرحلہ درپیش ہوگا ۔بھارت کے ساتھ تعلقات اور تجارت سمیت اندرونی معاملات میں سسٹم پر گرفت قائم کرنے سمیت کئی میدانوں میں یہ مشکل سامنے آئے گی ۔چودہ سیاسی جماعتوں اوردرجن بھر انفرادی اتحادیوں کی حکومت میں لاتعداد خواہشات کا بوجھ بھی ان کندھوں پر آن پڑا ہے ۔یہ میاں نوازشریف کے بغیر بڑے اقتدار کی فضائوں میں شہباز کی پہلی پرواز بلکہ تنہا پروازہے ۔ایسے میں نوازشریف کے حلقہ ٔ ارادت کی فطری خواہش بھی ہوگی کہ وہ ان کے سرپرست اعلیٰ کے طور پر انتظامی امور میں ڈھکا یا کھلا کردار ادا کریں ۔دوسری جانب آصف زرداری تو سپریم ہیڈ بننے کے میرٹ پر پورا اُترتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے