تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

خان صاحب بھول گئے کہ عوام نے ان کو ووٹ امریکہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونے کیلئے نہیں دیا تھا بلکہ۔۔۔۔۔
1۔90 دن میں کرپشن ختم کرنے کیلئے دیا تھا۔
2۔سیاست کو لوٹا کریسی اور اقربا پروری سے پاک کرنے کیلئے دیا تھا۔
3۔ ملک کو قرض کی لعنت سے نجات دلا کر خود مختار بنانے کیلئے دیا تھا۔
4۔ ایک پاکستان بنانے کیلئے دیا تھا۔ جہاں امیر اور غریب کو یکساں انصاف ملنا تھا۔
5۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کیلئے دیا تھا۔ ایسا پاکستان بنانے کیلئے دیا تھا جہاں باہر سے لوگ نوکریاں ڈھونڈنے آنے تھے۔
6۔ 50 لاکھ گھر بنا کر دینے کیلئے دیا تھا۔
7۔ گورنر ہاوسز اور وزیر اعظم ہاوسز کو یونیورسٹیاں بنانے کیلئے دیا تھا۔
8۔ سیاست کو اسٹیبلشمنٹ سے صاف کرنے کیلئے دیا تھا۔ جہاں ادارے سول حکومت کے ماتحت ہونے تھے۔
9۔ تعلیمی اور صحت ایمرجنسی کیلئے دیا تھا۔
10۔ پولیس کو عزیم ادرہ بنانے کیلئے دیا تھا۔
11۔سائیکل پر دفتر جانے کے لیے دیا تھا
12۔پروٹوکول ختم کرنے کے لیے دیا تھا
یہ بھی یا د کر لیا جائے کہ جب آپ کے زمانے کی اپوزیشن انتخابا ت کرانے کا مطالبہ کر رہی تھی تو اس وقت آپ کی پارٹی کا کہنا تھا کہ انتخابات نہیں حکومت اپنی مدت پوری کرے گی ،مدت مکمل ہو جانے پرانتخابات ہو ں گے آج سارا زور انتخابات پر کیو ں ہے اس لیے کہ موجو دہ حکومت کو درآمد شدہ قرار دے رہے ہیں وہ بھی تو سلیکٹڈ کا الزام دھرا کرتے تھے ۔ پی ٹی آئی کا کوئی لیڈر بتا سکتا ہے کہ اگلے انتخابات پی ٹی آئی اپنے محولہ بالا منشور کی بنیا د پر لڑنے کی سکت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ جس طرح سنہر ے خواب کی بتی کے پیچھے لگا دیا تھا اس مر تبہ جھولی ایسی مر اد وں سے خالی ہے چنا نچہ نیا بیانیہ لے کر سیا ست کھیلی جا رہی ہے پارٹی کے لیڈر طوطے کی طرح غلا می سے آزادی کا راگ بھیروی الا پ رہے ہیں وہ فخریہ سینہ پھولا کر ادعا کررہے ہیں کہ جو امریکا کا یا ر ہے وہ غدار ہے ، ہما را لیڈر نہ جھکنے ولا نہ بکنے والا ہے ، چلیں اس کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں ۔ سلا متی کو نسل کے جلا س کے موقع پر آپ نے طیب اردگا ن اور مہا تر محمد کو ایک نئے اسلامی بلاک کا خواب دکھا یا تھا جس پر مہا تر محمد نے آپ کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے کو لا المپور میں اسلا می کا نفرنس کااہتما م کیا ، اجلا س کے انعقاد سے چند گھنٹے پہلے آپ نے اس میں شرکت سے انکا ر کیا کیوںکہ سعودی عرب اور امریکا اس کا نفرنس سے ناراض ہورہے تھے آپ نے کا نفرنس کے دیگر شرکاء کی طرح شرکت کی ہمت نہیں کی کیو ں کہ آپ نہ جھکنے والے اور نہ بکنے والے ہیں ۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو گروی کر دیا گیا ہے ، اس ادارے میں تیس فی صد سے زائد شیئر امریکا کے ہیں باقی حصہ داروں کے شیئر کم ہیں یہا ں امریکا کی ہی چلتی ہے ۔ اسٹیٹ بینک کس بنیا دپر حوالے ہو ا ۔تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ آپ کی حکومت کامعاہد ہ ہو ا کہ فرانسیسی سفیر کو پاکستان بد ر کر دیا جائے گا مگر ایسا نہیں ہو سکا بلکہ کہا گیا کہ ایسا کیا گیا تو یو رپ اور امریکا ناراض ہو جائے گا ، جس غیر ملکی خط کوبنیا د بنا کر سیا ست کا اکھا ڑہ جما یا جارہا ہے اور اس خط کو کئی روز تک بغل میں دبائے رکھنے کی بجا ئے ضرورت اس امر کی تھی کہ فوری طور پر امریکا کے سفیر کو بلا کر خط کے مندرجا ت کے بارے میں پو چھ تاچھ کی جا تی اور اس کو امریکا رخصت کر دیا جا تا ، مگر اس خط پر آئندہ آئندہ انتخاب لڑ نے کی منصوبہ بندی تھی چنانچہ اسے بغچہ میں دبائے رکھا گیا سیا ست کی بساط ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر اس کے پہلے پھیر ے لگوائے پھر اسپیکر کی گو د میں دے دیا ۔آج پی ٹی آئی کا مخلص ورکر گلی کو چو ں میں نعرے لگاتا پھر رہا ہے کہ جو امریکا کا یا ر ہے وہ غدار ہے ۔لیکن یہ نعرہ پی ٹی آئی کے صف اول کے قائد ین اوراکابرین کے منہ سے سننے کو نہیں مل رہے ہیں صرف مخلص ورکر وںکو اس بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے کہ خود پر کوئی نا م نہ آئے ۔ طرہ جما نے والے تمام قائدین ان سچے اورمخلص ورکر وں کو اپنی سیاست میںاستعمال کر رہے ہیں ۔ حال تو یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ایک ٹی وی چینل کے اینکر پر سن مطیع اللہ جان نے سابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی اورترجما ن شہباز گل سے کہا کہ آپ کی پارٹی کا مقبول ترین نعرہ اس وقت یہ ہے کہ جو امریکا کایا ر ہے وہ غدار ہے یہ نعرہ پارٹی کے اکابرین نہیںلگا رہے ہیں بلکہ ورکروں سے لگوا رہے ہیں ذرا آپ ان کے سامنے اپنے منہ سے یہ نعرہ لگا دیں کہ عوام دیکھ لے کہ قائدین پی ٹی آئی بھی ایسا ہی مئوقف رکھتے ہیں ، جواب میںشہباز گِل نے غیر ملکو تی مسکراہٹ کے ساتھ یہ نعر ہ لگانے سے انکار کردیا ۔ پی ٹی آئی کے اکابرین اور خود قائد عمر ان خان کا ادعا ہے کہ امریکا ان سے اس لیے ناراض ہے کہ وہ روس کیو ں گئے ، بھلا یہ تو بتادیں کہ رو س جا کر انھوں نے پاکستان کے لیے کیا کما یا ، پاکستا ن کا خرچا کیا کھایا پیا پیوٹن سے ہا تھ ملا یا واپس لو ٹ کر گھر کو آئے ، ناراضی کی کوئی بنیا د تو ہو نا چاہیے ، بھارتی وفد نے سرمائی ایشیائی اولمپک ٹورنا منٹ کے موقع پر چینی لیڈروں سے مذاکرات بھی کیے اور تجا رتی تعلقات کے مزید فروغ کے اقداما ت بھی کیے ۔ چین سے امریکا اسی قدر نا راض ہے جس قدر وہ روس سے نالا ں ہے ۔ بلکہ امریکا کو روس سے نہیںچین سے زیا دہ بغض ہے بھارت سے تو اس نے کوئی با ز پر س نہیں کی ۔پاکستان کے وزیر اعظم نے تو صرف ماسکو کا چکر لگایا یا یوںکہہ لیجئے کہ سیر کی یہ بھی یا د رہے کہ جب چین میں پاکستانی وفد ایشیائی اولمپک کھیلوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے تب عدم اعتما د کی خبر آئی تھی جس پر فواد چودھری اپنے قائد سے وفاداری کے اظہا ر پر ایسے اترے کہ انھوں نے سب بالا طاق رکھ کر تحریک کے محرکین کوبے نقط کی سنا نا شروع کر دی تھیں ۔ کیا فوادچودھری بتا سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی اپنی حکومت کی کا رکردگی کی بنیاد پر انتخابات میںعوام کاسامناکرسکتی ہے ۔ آپ کی پارٹی تو قرض کی لعنت سے چھٹکار ہ دلانے کے لیے آئی تھی کیا کیا پو ری قوم کا بال بال قرضے میںجکڑ دیا ۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے