برداشت ہی جمہوریت کی اصل روح ہے

وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران حکومت کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے شہباز شریف نے چند اہم اعلانات کئے۔ انہوں نے کہا انکی حکومت میں مزدور کی کم سے کم اجرت پچیس ہزار روپے ہوگی۔انہوں نے اعلان کیا کہ یکم اپریل سے سول اور ملٹری ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں دس فی صد اضافہ کیا جائے گا، اسکے ساتھ ہی ایک لاکھ تک تنخواہ لینے والے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی دس فی صد اضافہ ہوگا۔بے نظیر کارڈ اور لیپ ٹاپ سکیم کو دوبارہ شروع کیا جائے گا اور نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر سکھایا جائے گا۔انہوں نے مذید کہا کہ ملک میں گرتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے ڈیڈلاک سے نہیں بلکہ ڈائیلاگ سے کام لینا ہوگا، سی پیک پر کام تیز کرنا ہوگا۔ حکومت کی خارجہ پالیسی کے خدوخال کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ برطانیہ کے ساتھ پاکستان کے تاریخی تعلقات رہے ہیں ۔برطانیہ میں اب بھی لاکھوں پاکستانی آباد ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کے میدان میں ڈی ایف آئی ڈی کے کردار کو سراہتے ہوئے انہوں نے برطانیہ سے اچھے تعلقات رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اسی طرح چایئنا کو بھی اچھا دوست قراردیتے ہوئے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیا۔مسلم دنیا اور خصوصا سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات، ایران، کویت ، عمان اور تمام خلیجی ممالک سے تعلقات مزید بہتر بنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے بھارت کے وزیراعظم کو پیشکش کی کہ آو مسلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے زریعے حل کرکے خطے کی ترقی کی خاطر آگے بڑھیں ۔انہوں نے کہا کہ افغانستا ن ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور ہمیں یک آواز ہوکر ہر فورم پر افغانستان کے لئے آواز اٹھانا چاہئے۔ بظاہروزیراعظم کی تقریر کو متوازن تقریر کہا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے اپنی حکومت کی ترجیحات کا ایک عبوری خاکہ مختصر الفاظ میں بڑے اچھے انداز میں عوام کے سامنے رکھا لیکن اب وقت ہی بتا ئے گا کہ وزیراعظم اپنے ان الفاظ کو عملی جامہ کب اور کیسے پہناتے ہیں۔ صرف اچھی تقریروں سے کام نہیں چلے گا اور اس بات کا ادراک شاید وزیراعظم کو بھی ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر کے دوران اس بات کا برملا اظہار بھی کیا کہ اگر باتوں سے ہی تبدیلی آتی تو اب تک وطن عزیزایک ترقی یافتہ ملک ہوتا۔ لیکن خود وزیراعظم کا پروگرام کیا ہے کہ وہ اس ملک کی تقدیر کو بدلنے کے لئے کیا لائیحہ عمل اپناتے ہیں۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ جلد سے جلد عوام کے سامنے ایک روڈ میپ رکھیں اور عوا م کو بتائیں کہ ملکی مسائل کے حل لے لئے انکے پاس کیا پروگرام ہے۔ انکی حکومت کتنی دیر کے لئے ہے؟ کب عام انتخابات میں جارہے ہیں۔ جتنی دیر پی ڈی ایم کی حکومت رہے گی اس دوران حکومت کے اہداف کیا ہیں۔ ان اہداف کے حصول کے لئے حکومت کے پاس کیا پلان اور پروگرام ہے، ان مسائل کے حل کے لئے ہمارا میکانزم کیا ہے۔وزیراعظم بار بار کہتے رہے کہ وہ انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہاتھ ہلا ہلاکر تحریک انصاف کی حکومت پر اعتراضات کی بوچھاڑ سے اپنا بوجھ مسلسل ہلکا کرتے رہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پچھلے ساڑھے تین سال میں حکومت نے بیس ہزار ارب کے قرضے لئے۔یہ ان الزامات کی تکرار ہے جو سابق وزیراعظم پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی سابق حکومتوں پر مسلسل لگاتے رہے ہیں۔دوسری طرف سابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ حکومت کے خلاف ملک گیرتحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ بیرونی سازش کے نتیجے میں بننے والی درآمد شدہ حکومت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ چوروں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرینگے۔ یہ بلا شبہ ایک غیر جمہوری رویہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ، پیپلزپارٹی،جمعیت علما اسلام اور دیگر چھوٹی پارٹیاں بھی اس ملک کے عوام کی نمائندہ جماعتیں اور ایک سیاسی حقیقت ہیں۔سوال یہ ہے کہ آیندہ عام انتخابات کے نتیجے میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں دوبارہ برسر اقتدار آجاتی ہیں یا انفرادی طور پر کوئی پارٹی اکثریت لے جاتی ہیں تو کیا تحریک انصاف پھر سے عوام کو سڑکوں پر آنے کے لئے کال دے گی۔ برداشت جمہوریت کی روح ہے۔ اگر اس طرح قوم اور ملک کے فیصلے سڑکوں پر ہونے لگے تو پھر تو اس ملک کا خدا ہی حافظ۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں ملکی بقا اور ترقی کی خاطربھر پور طریقے سے ایک سنجیدہ اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔ نگران وزیراعظم کے لئے مشاورت میںا پنا حصہ ڈالے۔نیب کو مضبوط اورفعال بناے میں کردار اداکرے۔ انتخابی اصلاحات اور اسی طرح کے دیگرقومی نوعیت کے اہم مسائل میں اپنا وزن ڈالے۔ سڑکوں پر رہ کر میدان اپوزیشن کے لئے کیوں کھلا چھوڑدے۔ اس دوران پارٹی کے منتظمین کو وقت بھی مل جائے گا کہ وہ اپنی پارٹی کو منظم بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے اورمضبوط کریں۔ پارٹی کی تطہیر کریں اوراس سے وہ سارے گندے انڈے نکال لیں جس کی وجہ سے ان کو یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو