ڈاکٹر عامر لیاقت اور مکافات عمل

یہ 2014کی بات ہے جب ملک کے نامور مذہبی سکالر اور نعت خوان جنید جمشید مرحوم سے اپنے ایک خطاب میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا ذکر کرتے ہوئے ان سے نا دانستہ طور پر کچھ نا مناسب الفاظ ادا ہو گئے تو ملک میں انکے خلاف ایک طوفان کھڑا ہو گیا اور انہیں گستاخ رسول کہا جانے لگا حالانکہ تقریر کے بعد انہیں خود بھی احساس ہو گیا تھا کہ ان سے بعض غیر ضروری جملے ادا ہو گئے ہیں اور انکے دوستوں اور اساتذہ کرام بالخصوص مولانا طارق جمیل نے بھی انہیں احساس دلا دیا تھا اور اسکے ازالے کیلئے ان سے استغفار کرنے اور قوم سے غلطی کی معافی کی درخواست کی چنانچہ جنید جمشید نے نہ صرف اللہ سے توبہ و استغفار کا ورد شروع کر دیا بلکہ بلکہ ایک ویڈیو کے ذریعے قوم سے بھی اپنی غلطی کی معافی مانگی لیکن اسکے باوجود کچھ لوگ انہیں معاف کرنے پر تیار نہیں تھے وہ باربار انہیں برا بھلا کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہے جن میں نام نہاد مذہبی سکالر ڈاکٹر عامر لیا قت شامل ہیں۔اس نے 11مئی کو جنید جمشید مرحوم کے متعلق کہا تھا کہ جنید جمشید کی ماں ایک فاحشہ عورت تھی اور یہ الفاظ جنید جمشید مرحوم کے دل پر بجلی بن کر گرے تھے چونکہ وہ تبلیغ میں آ چکے تھے اور بالکل بدل چکے تھے اس لئے انہوں نے عامر لیاقت کو برا بھلا کہنے کی بجائے صرف اتنا کہا کہ عامر لیاقت تمہارے الفاظ نے آج مجھے اور میرے خاندان کو جو اذیت اور تکلیف دی ہے ایسی اذیت اور تکلیف مجھے زندگی میں کبھی نہیں ملی۔جنید جمشید دو سال بعدتبلیغ کے سلسلے میں چترال گئے اور واپسی پر ایک جہاز حادثے میں اپنی بیوی سمیت شہید ہو گئے لیکن انکے دل سے عامر لیاقت کے متعلق جو آہ نکلی تھی وہ اللہ تعالیٰ نے سن لی تھی اور ٹھیک 6سال بعد اسی 11مئی کو عامر لیاقت اُ س وقت نشانِ عبرت بن گیا جب اسکی تیسری بیوی دانیہ شاہ نے بہاولپور کی ایک فیملی کورٹ میں اپنے خاوند کے خلاف خلع کا دعوی دائر کرتے ہوئے کہا کہ عامر لیاقت ایک شرابی انسان ہے اور وہ شراب کے نشے میں دھت ہو کر اکثر اس پر نہ صرف تشدد کرتا تھا بلکہ غلیظ گالیوں سے بھی نوازتا تھا۔اس نے کہا کہ عامر لیاقت جو بظاہر دکھتا ہے ویسا نہیں ہے ۔اُس نے شادی سے پہلے جو خواب دکھائے تھے حقیقت اسکے برعکس تھی مجھے ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا ہوا تھا نہ ہی مجھے باہر جانے دیتا تھا اور نہ ہی کبھی خرچہ دیا ۔اسکے ساتھ گذرے چار ماہ کسی اذیت سے کم نہیں۔ دانیہ شاہ نے یہ بھی انکشاف کیا کی وہ نماز بھی نہیں پڑھتا۔اس نے مذہب کا ایک لبادہ اوڑھا ہوا ہے لیکن اندر سے ایک شیطان ہے۔ اس نے میڈیا کو اپنے خاوند کی قابل اعتراض تصویریں بھی فراہم کیں۔دانیہ شاہ کی پریس کانفرنس نے عامر لیاقت کی شخصیت کا جنازہ نکال دیا ہے۔اب وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ویسے تو اسکی شخصیت ہمیشہ ہی متنازع رہی ہے۔اسکی کئی اخلاق سوز ویڈیوز منظر عام پر آئیں اور اسکی تعلیمی ڈگریوں پر بھی تنازع چلتا رہا۔شروع میں اس نے دعوی کیا کہ 1995میں اس نے اسلامک اسٹڈیز میں بی اے کیا جبکہ 2002میں وفاقی اردو یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف فلاسفی کیا۔اس نے ایک دعوی یہ بھی کیا کہ اس نے1994میں لیاقت نیشنل میڈیکل کالج جامشورو سے ایم بی بی ایس کیا جبکہ مذکورہ میڈیکل کالج نے اسکی تردید کر دی۔2006میں ایجوکیشن کمیشن نے اسکی بی اے کی ڈگری جعلی قرار دے دی۔2002کے انتخابات میں اس نے انگلینڈ کے ٹرینٹی کالج سے حاصل کردہ بی اے کی ڈگری استعمال کی جو بعد میں جعلی ثابت ہوئی ۔برطانیہ کے مشہور اخبار گارڈین نے دعوی کیا کہ عامر لیاقت نے یہ ڈگری150ڈالر کے عوض سکین کی تھی۔ حیرانگی کی بات ہے کہ عامر لیاقت جعلی ڈگریوں کے باوجود عالم آن لائن اور رمضان ٹرانسمیشن کے پروگرام کرتا رہا اور مختلف ٹی وی چینلزمیں گروپ ایڈیٹر اور مینیجنگ ڈائریکٹر جیسے مناصب پر بھی فائز رہا اور اسکا نام عالم اسلام کی پانچ سو مذہبی شخصیات میں بھی شامل ہے۔وہ بیک وقت مذہبی سکالر اور شوبز اسٹار بھی ہے۔2016میں خبر چلی کہ ڈاکٹر عامر سید نور کی ایک فلم میں صائمہ نور کے مدمقابل کردار ادا کرے گا جبکہ2019میں اس نے قوم کو خوشخبری دی کہ وہ ایوب کھوسو کی فلم میں برہان وانی کا کردار ادا کرے گا جسکا بنیادی موضوع کشمیر ہو گا۔ڈاکٹر عامر لیاقت نے اپنا کیریئر مذہبی سکالر سے شروع کیا لیکن پھر شو بز کی طرف چلا گیا مگر جنید جمشید مرحوم نے اپنا کیریئر سنگر سے شروع کیا لیکن پھر مذہب کی طرف ایسے گیا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھا حتی کہ جان بھی اللہ کے راستے میں دے دی اور اسکی موت پر پورا ملک اشکبار ہوا ۔آج عامر لیاقت اپنی تیسری بیوی کی وجہ سے پریشان ہے اور اس نے اب پاکستان چھوڑنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن اسکی پریشانی کی وجہ وہ مکافات عمل ہے جو کسی کی آہ سے شروع ہوا ہے اور نہ جانے یہ کہاں جا کر رکتا ہے۔ اگر آپ کسی کی بد دعائیں لیں گے تو یقینا دنیاً میں ہی رسوائی آپ کا مقدر بن جائے گی اور وہ بھی ایک مرد قلندر کی جسکی اللہ جلد ہی سنتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  مال مفت دل بے رحم ؟