چین امریکہ کشمکش کا مستقبل

امریکہ اور چین کے درمیان تائیوان نقطہ ٔ کھولائوبن کر رہ گیا ہے ۔ایک ایسا نقطہ اور مقام جہاں دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان ایک ایسی تباہ کن لڑائی ہو سکتی ہے جس میں شاید ہی کوئی فاتح بن سکے ۔امریکہ تائیوان کی آزادی اور خودمختاری کواپنی انا کا مسئلہ بنائے ہوئے تو چین اسے ون چائنہ پالیسی کی موت جان کر اپنی ریڈ لائن بنا چکا ہے۔چین کو جب بھی محسوس ہوا کہ سرخ لکیر عبور ہو رہی ہے تو وہ کچھ بھی کر گزرے گا ۔ایک طرف امریکہ کواڈ نامی اتحاد کے ذریعے چین کے گرد ایک بڑا گھیرا ڈالنا چاہتا ہے تو دوسری طرف چین بھی متبادل حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے جن میں ایک امریکہ کے علاقائی اتحادی بھارت کا جوابی گھیرائو ہے ۔چین کی اس سکیم میں پاکستان کا کردار اہم ہو کر رہ گیا ہے ۔امریکہ اس وقت پاکستان کو اپنی جانب گھسیٹنے کی ساری کوششیں بھارت کے گھیرائو کی پالیسی کو ناکام بنانے کی حکمت عملی کے تحت کر رہا ہے ۔لمحہ ٔ موجود میں پاکستان تو چین کے پہلو سے نکل کر امریکہ کی جانب بڑھتا ہوا محسوس ہورہا ہے مگر اس پالیسی کے مستقبل کا تعلق پاکستان کے آنے والے دنوں کی صورت گری سے ہے ۔چین کا ایک بحری جہاز سری لنکا کی بندرگاہ ہمبنٹوٹا میں بھارت کی مخالفت کے باوجود لنگر انداز ہو چکا ہے۔شمالی سری لنکا کے شہر جافنا میں چین کی کیل کانٹے سے لیس ہو کر موجودگی کو بھارت اپنے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھتا ہے۔سری لنکا کا یہ علاقہ بھارت کے علاقے تامل ناڈو سے صرف پچاس کلومیٹر کی دوری پر ہے ۔بھارت اپنے پہلو میں لنگر انداز جہاز کو جاسوس اور فوجی مقاصد کا حامل قرار دیتا ہے۔ دنیا کا ہر تجزیہ نگار دنیا کی پہلی اور دوسری معیشت میں اس ٹکرائو کا اپنے اپنے انداز سے تجزیہ کر رہا ہے ۔بھارت کے دفاعی تجزیہ نگار پروین ساہنی جو اس موضوع پر کئی کتابوں اور تحقیقی مقالوں کے مصنف بھی ہیں ایک ٹویٹ میں یوں رقم طراز ہیں ۔اگر امریکہ اپنے اعلیٰ حکام کے تائیوان کے مسلسل دوروں کے ذریعے چینیوں کو مشتعل کرنے کاکام اور چین سے علیحدگی چاہنے والوں کی سرپرستی جاری رکھتا ہے تو چین کا ممکنہ ردعمل تین صورتوں میں سامنے آسکتی ہے۔اول یہ کہ چین امریکہ کے ساتھ کھلی جنگ لڑے گا جس کا نتیجہ کسی کی جیت کی صورت میں برآمد نہیں ہوگا ۔دوئم یہ کہ ایسی جنگ چین کے پُرامن اُبھار اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا۔سوئم چین بھارت پر حملہ کرکے امریکہ انڈو پیسفک سٹریٹجی کو تباہ کر سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ چین کو تائیوان کے دوروں کے ذریعے مسلسل مشتعل کر رہا ہے کیونکہ جنگ امریکہ کا واحدآپشن ہے۔یہ جنگ کیسی ہوگی اس کی تصویر کشی نیٹو سابق سپریم کمانڈر ایڈم جیمز سٹیورڈس نے اپنے ناول”2034”میں کی ہے۔یہ فکشن ہے جس میں چین تیرہ برس بعد کے حالات کی ایک تصوراتی تصویرکھینچی گئی ہے۔جس کے مطابق چین آخر کار تائیوان پر بزور طاقت قبضہ کر لیتا ہے۔اس مقصد کے لئے سائبر ٹیکنالوجی کابہترین اور کامیاب استعمال کیا جاتاہے ۔چین امریکی سپیس کے ڈیجیٹل کنٹرول سسٹم کی حرکت کو روک کرامریکہ کے لڑاکا جہازوں کو ناکارہ اور مفلوج بناتا ہے۔ایسے میں وہ اپنے جہازوں کا سسٹم کرکے اور ان کی نقل وحرکت روک کر نقصان سے بچا لیتا ہے ۔مسٹر ایڈم جیمز کا ایک اہم انٹرویو بھی کئی تصریحات کے ساتھ سامنے آیا ہے جس میں وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیںکہ چین کے پاس سیٹلائٹ کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔یوں یہ ایک مکمل سائبر وار کی منظر کشی ہے۔۔فی الوقت امریکہ کواس میدان میں چین پر برتری حاصل ہے مگر ماہرین کا خیال ہے کہ حملہ کرنے کی صلاحیت کی حامل سائبر ٹیکنالوجی اور آرٹفیشل اینٹلی جنس میں امریکہ کی یہ برتری بتدریج ختم ہو رہی ہے ۔امریکہ کی نیشنل سیکورٹی کمیشن کی رپورٹ میں گوگل سابق چیف ایگزیکٹو یرک سمتھ اور سابق ڈپٹی سیکرٹری آف ڈیفنس وابرٹ ورکے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اگلے دس پندرہ برس میں جو 2034کے قریب کا دور ہی ہے چین امریکہ کو ان میدانوں میں پیچھے چھوڑ کر نکل جائے گا۔مصنف کا کہنا تھا کہ چین اور روس قریب آرہے ہیں ۔دواتھارٹیرین طاقتیں ایک دوسرے کی قوت بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں۔روس کے پاس وسیع رقبہ ،طاقت اور قدرتی وسائل ہیں جبکہ چین کی آبادی بہت بڑی ہے ۔مستقبل کے تصادم سے بچنے کا ڈھیلا ڈھالا حل مصنف نے یوں پیش کیا ہے کہ امریکہ اپنے انتخابات میں چین کو مداخلت سے روکے انسانی حقوق کے معاملے میں اس کی ڈٹ کر مخالفت کرے جنوبی چین کے جزائر میں چینی عزائم کامقابلہ کرے مگر ماحول اور موسم سمیت دوسرے شعبوں میں دوطرفہ تعاون بھی جاری رکھے ۔یہ حل کس حد کارگر ہوتا ہے اس کا جواب تو ایڈم جیمز کے پاس بھی نہیں۔یہ وہ ممکنہ سنگین حالات ہیں جو چین اور امریکہ کے درمیان پیدا ہو رہے ہیں ۔یہ کشمکش ماضی کی سرد جنگ کی طرح دنیا کے کئی ملکوں کے اندر بالادستی اور اثر رسوخ کی لڑائی کی شکل اختیار کر چکی ہے اور پاکستان ان ملکوں میں سرفہرست ہے۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟