پوت کپوت پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں

پورے ملک میں چار پانچ گھنٹے کی ذہنی کھچاؤ پیدا کرنے بعد آخر وہ کیا جو آئین اور قانو ن کا تقاضا تھا ، جو ڈیشنل ریمانڈ کے مقید پر پولیس کا کوئی حکم نہیں چلا کرتا ہے بلکہ جیل حکام عدالت کے حکم کے پابند ہوتے ہیں چنانچہ جب اسلا م آبادکی عدالت نے انھیں جسما نی ریما نڈ پر پو لیس کے حوالے کرنے کا حکم جا ر ی کیا توا س کے بعد جیل حکام کے پاس کوئی قانونی عذر نہ تھا کہ وہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کرے ، لیکن جیل حکام جو پنجا ب حکومت کے ما تحت ہیں اپنی مٹھن پر اڑ گئے کہ شہباز گل کو اسلام آبا دپولیس کے حوالے نہیں کیا جا ئے گا ان کی طبیعت بہت نا سا ز ہے چنانچہ ان کو راولپنڈی کے ضلعی اسپتال لے جایا جائے گا ، قانو ن کا معمولی سا بھی طالب جانتا ہے کہ جیل حکام کی یہ ہٹ دھرمی آئین اورقانو ن کی خلا ف ورزی ہے ، چنا نچہ پنجا ب پولیس نے جیل کے سامنے پو زیشن سنبھالی تاکہ اسلا م آبا دپو لیس بزور شہبا ز گل کو نہ لے جاسکے چنانچہ دونو ں پولیس یعنی صوبائی پولیس اور وفاقی پولیس آمنے سامنے صف آراء ہوئیں جس سے بہت سارے اندیشوں اور خدشات نے جنم لینا شروع کردیا ، صوبے اور وفاق اداروں میں تصادم کے خطرات اثرات محسوس ہو نے لگے ، خیر کوئی چار پانچ گھنٹے کی یہ کھنچا تانی اس وقت ختم ہوئی جب وفاق کی جانب سے رینجر ز کو تعینا ت کیا گیا ، اس سارے پس منظر میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیو ں ہو ا اور کس کی منشا سے ہوا ، سننے میںیہ آرہا ہے کہ یہ سب عمران خان کے حکم یا اشارے پر کیا گیا ، پنجاب انتطامیہ کے سربراہ پرویز الہٰی ہیں یہ سارا ملبہ ان کے سر پر ہے کیو ں کہ عمر ان خان کے پا س کوئی سرکا ری عہد ہ نہیں ہیں پھر ان کا حکم کیسے چل سکتا ہے آخر اس ملک کا کوئی آئین اور قانون بھی تو ہے ،یا جیسا کہا جا تاہے کہ عمر ان خان خود کو ہر قانون اورآئین سے ماورا سمجھتے ہیں یہ اسی کا شاخسانہ ہے ، لیکن ان اعلیٰ حکام بھی جواب دہ ہیںکہ انھوں نے قانو ن اور آئین کی خلا ف ورزی کیوں کر کی ۔ عمران خان کے بارے میں ان کے سیاسی مخالف یہ الزام لگا تے آئے ہیںکہ عمر ان خان اداروں کو ایک دوسرے کے مقابل لانا چاہتے ہیں گزشتہ روز کچھ ایسا ہے منظر دیکھنے میں آیا اگر یہ سب عمران خان کی چاہت میں کیا گیا ، اس کے ساتھ یہ احساس اجا گر ہورہا ہے کہ کوئی تو ہے جو یہ گل کھلا رہے ورنہ پی ٹی آئی اتنی سکت کی حامل نہیں ہے ، یہا ں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ عمر ان خان کیو ں شہباز گل کو پولیس کی تحویل میں دینا نہیںچاہتے ، کہا جاتا ہے کہ پولیس دباؤ ڈال کر یا تشدد کر کے شہباز گل سے اپنی مرضی کا بیان لے لے گی ، اس طرح حکومت عمر ان خان کے خلا ف گھیر ا تنگ کر نا چاہتی ہے ، قانون وآئین کا معمولی سا معمولی طالب علم بھی یہ جا نتا ہے کہ اگر پولیس کی تحویل میں ملز م اپنی مرضی سے بھی کوئی بیان ریکا رڈ کراتا ہے تب بھی اگر وہ عدالت میں اپنے بیا ن کے بارے میں یہ بتا دے کہ اس نے بیان پولیس کے خوف کی بناء پر دیا ہے تو اس کا بیان عدالت کے سامنے زیرو ہو جاتا ہے ، پولیس کا ریکا رڈ کیا ہو ا بیان کبھی بھی عدالت میں معتبر قرار نہیں پا تا ،ہا ں البتہ جو دوسرے ذرائع کہہ رہے ہیں کہ بیان کا خوف نہیں البتہ یہ ڈر موجود ہے کہ دوران تفتیش کوئی ایسی بات اگلوالی جائے جس سے کوئی ثبوت حاصل ہو سکے وہ خطرے کی گھنٹی ہے ، لگتا یہ ہی کہ پولیس جو شہباز گل کا موبائل ، لیپ ٹاپ حاصل کرنے کی متمنی ہے اس سے دور رکھنے کے لیے یہ سب رچایا جا رہا ہے ، پی ٹی آئی کی سرگرمیاں یہ احساس دلا رہی ہیں ، کہ موبائل اور لیپ ٹاپ میں بہت کچھ ہے جس کی وجہ پر شانی کا باعث بن رہی ہے ، عمر ان خان اپنے دور میں کہا کرتے تھے کہ قانون کی بالا دستی قائم کریں گے اب بھی وہ شہباز گل کے معاملے میں فرما تے ہیںکہ اگر شہبا ز گل نے کچھ کیاہے تو قانون کے مطا بق کارروائی کی جائے ، اب وہ ہی بتا سکتے ہیںکہ اب تک حکومت نے شہباز گل کے خلا ف کیا غیر قانونی اقدام کیا ہے ، وہ بحیثیت وزیر اعظم فرمایا کرتے تھے کہ اپو زیشن کو اگر کوئی شکو ہ ہے تو عدالتیں کھلی ہیں وہ عدالتوں رخ کریں ، اب وہ خود نہیں کرتے ، انھیں ایف آئی اے نے طلب کیا ہے اس پر وہ جانتے ہیں کہ کیا قانونی تقاضا ہے پھربھی وہ آیف آئی اے کو فرما رہے ہیں کہ وہ نہ تو ان کو جو اب دہ ہیں اورنہ وہ پیش ہو ں گے ، ماضی میں اپنے مخالفین کو کیا نصیحت کر تے تھے شاید ان کویا د نہ رہا اسی طر ح انھو ں الیکشن کمیشن کو لتاڑ دیا ہے کہ وہ اپنا نو ٹس واپس لے لے ، پنجا ب میں تو پی ٹی آئی کی حکومت ہے جہا ں سے وہ شہبا زگل کو سہولتیں میسر تھیں جیسا کہ سب نے دیکھا کہ صوبائی حکومت انھیں عدالتی حکم کے باوجو د اسلا م آباد پولیس کے حوالے کرنے سے انکا ری تھی ، اگر اسلا م آباد کی کسی عمارت کو سب جیل قرار دے کر شہباز گل کو وہا ں منتقل کر دیا گیا تو پنجا ب حکومت سے ان کا کسی بھی قسم کا علاقہ نہیں رہے گا ، ملز م اور مجرم دونو ں کے حقوق ہیں ، جس کی خلا ف ورزی قابل مذمت فعل قرار پا تا ہے ، مجرم کو اسی قواعد وضوابط کے ساتھ سزا ملنا چاہیے جس کا عدالت نے حکم دیا ہو اسی طر ح ملزم کا یہ حق ہے کہ اس پر دوران تفتیش کسی قسم کا چاہے وہ جسمانی ، روحانی ، غیر اخلا قی ، کوئی تشد د نہیں ہونا چاہیے پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ اسی دلیر ی کا مظاہر ہ کرے جیسا کہ ان کے دور میں زیر عتاب آنے والی حزب اختلا ف نے کیا تھا مہینو ں کا ریمانڈ بھگتا تھا ، مریم نواز اور رانا ثناء اللہ نے بھی تشدد کا الزام لگایاتھا مگر ایسے حالا ت پیدا نہیں کیے تھے ضمانتیں نہ ہونے پر کئی کئی ماہ جیلوں میں کا ٹے ،اسی طرح ا داروں کو آمنے سامنے لا نے گریز کیا جائے یہ کسی طور ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔

مزید پڑھیں:  کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری