مشرقیات

فرض شناس ہونا بڑی خوبی کی بات ہے یہ اور بات ہے کہ ہم فریب شناس زیادہ ہیں اس لئے فرض سے کم اپنی ذات سے زیادہ مطلب رکھتے ہیں ۔سیوطی نے لکھا ہے مخیر مدنی مدینہ ہائیکورٹ کے رجسٹرار تھے اور محمد بن عمران طلحی چیف جسٹس کچھ اونٹ والوں نے ان کی عدالت میں ایک دعویٰ دائر کیا یہ دعویٰ خلیفہ وقت منصور عباسی کے خلاف تھا۔ مخیر مدنی کہتے ہیں چیف جسٹس صاحب نے مجھے بلایا اور حکم دیا کہ ۔ امیر المومنین کو عدالت میں حاضر کیا جائے پھر فرمایا کہ آج کل وہ یہیں مدینے میں ہیں فوراً سمن تعمیل کرائو تاکہ مقدمے کا فیصلہ کیا جاسکے ۔مخیر مدنی ایک لمحے کے لئے سوچ میں پڑ گئے ایسا محسوس ہوا جیسے مگر مچھ اور کھائی کے درمیان پھنس گئے ہوں خلیفہ وقت کو عدالت میں بلانے کا مسئلہ ٹیڑھا تھا بڑا ٹیڑھا بہت ادب سے انہوں نے اپنے چیف جسٹس سے معذرت کی طرح ڈالی اور دنیا کی اونچ نیچ کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی جرأت کی محمد بن عمران نے ان کی پوری بات سنی
اور حکم دیا۔ جائو جو کچھ میں نے کہا ہے فوراً اس کی تعمیل کرو اب اور اسی وقت سمن تیار کر لائو۔ عدالت کی مہر کے ساتھ سمن آگیا تو دوسرا حکم ملا۔ مخیر!تم خود جائو اور امیر المومنین پر اس سمن کی تعمیل کرائو مخیر کے لئے یہ سمن سانپ کے منہ میں چھچوندربن گیا کہ نہ اگلے بن پڑے نہ نگلے آخر ہمت کرکے سمن لے چلے کہ چھوٹ کی کوئی صورت ہی نہ تھی سمن لیکر شاہی محل پہنچے ربیع معتمد پیشی تھے ان سے ملے انہیں سمن دکھایا ربیع نے سمن لیا محل میں امیر المومنین کے پاس گئے مخیر اپنی جگہ پارے کی طرح لرزاں ترساں کھڑے رہے مستقل دھڑ کا ان کے دل سے لگا تھا اتنے میں ربیع لوٹے ان کے ہاتھ میں وہی سمن تھا مگر اب اس پر امیر المومنین کے دستخط تھے مطلب یہ تھا کہ وقت مقرہ پر بندہ منصور خلیفہ عباسی عدالت میں حاضر ہو جائے گا۔ ربیع نے اپنے مدد گاروں کو بلا کر امیر المومنین کا پروگرام بتایا اور کہا کہ امیر المومنین کا حکم ہے عدالت جاتے وقت ان کے ساتھ پہرے چوکی کا انتظام نہ ہو کیونکہ ان کی حیثیت ملزم کی ہے اور یہ بات آداب عدالت کے
خلاف ہے کہ کوئی نوبت نقارے اور شاہانہ ٹھاٹ کے ساتھ وہاں جائے مخیر کہتے ہیں کہ پیشی کا دن آیا تو میں ایک ایک لمحہ گنتا رہا اتنے میں امیر المومنین اور ربیع آئے ساتھ اور کوئی نہ تھا عدالت میں کوئی بھی ان کے استقبال کے لئے نہ اٹھا ۔کسی نے ذرا ان کی تعظیم نہ کی حتیٰ کہ ایک موقع پر ان کی چادر گرپڑی تو انہوں نے خود ہی اٹھا لی ۔ ربیع تک کو انہوں نے منع کر دیا مقدمہ پیش ہوا تو عام ملزموں کی طرح امیر المومنین کٹہرے میں کھڑے رہے بیانات ہوئے شہادتیں ہوئیں جرح ہوئی آخر میں فیصلہ صادر ہوا۔ فیصلہ ہوا جو امیر المومنین منصور عباسی کے خلاف تھا حاضرین کے پیروں تلے کی زمین نکل گئی معاملہ نازک سے نازک تر ہو گیا تھا دل ہی دل میں سب محمد بن عمران طلحی کے لئے دعائیں کرنے لگے مگر عدالت برخاست ہوئی تو امیر المومنین خود بڑھ کر قاضی صاحب کے پاس آئے بولے ۔ تم قانون کے محاظ ہو اللہ تمہیں اس کا اجر دے کہ تم نے کھرا فیصلہ دیا اور اس بات کا ذرا خیال نہ کیا کہ مجرم حاکم وقت ہے میں تمہاری تعریف کیا کروں یہ دس ہزار اشرفی میری طرف سے بطور تحفہ قبول کرو ۔ انعام کا سن کر مخیر نے کہا کہ آج ابن عمران پھانسی کے تختے پربھی ہوسکتے تھے مگر ابن عمران ہر بات سے بے نیازمطمئن تھے کہ فرض ادا ہوا۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے مفادات کا کسی کو خیال بھی ہے