احسن فیصلہ’ متبادل بھی ہونا چاہئے

حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے معاہدے کی پاسداری اپنی جگہ مجبوری تھی جس کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے لگژری اور غیر ضروری اشیا کی درآمدات پر عائد پابندی ہٹانے اور درآمد شدہ اشیا پر400 سے 600فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا اقدام کیاگیاہے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نہیں چاہتے کہ لگژری آئٹمز کو پاکستان میں آنے کی اجازت دی جائے جو بالکل درست ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس محدود ڈالر ہوتے ہیں تو انتخاب کرنا بھی آسان ہو جاتا ہے کہ اس سے گاڑی منگوائیں یا آٹا منگوائیں’ موبائل فون منگوائیں یا دالیں منگوائیں’ اس لیے ہی ان اشیا پر پابندی لگائی گئی تھی لیکن اب چونکہ یہ عالمی سطح پر شرط عائد کی گئی ہے کہ یہ پابندی نہیں ہونی چاہئے تو پابندی ہٹائی جارہی ہے اور ساتھ ہی اس پر بھاری ٹیکس عائد کر کے 400 سے600فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی جارہی ہے۔مالیاتی مسائل کا شکار اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ملک میں تعیشات کی بھر مار کا اولاً عوامی سطح پر اپنے ملک کی خیر خواہی میں خاتمہ ہونا چاہئے تھا یا کم از کم ادویات یا نہایت ضروری اور ایسی اشیاء جن کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہو اس تک محدود ہوناچاہئے تھا لیکن یہاں صورتحال الگ ہے جس کے تدارک کے لئے حکومت کے اقدامات ضروری تھے البتہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ان اشیاء کو غیر قانونی طور پر لانے اور سمگلنگ کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کرنے ہوں گے جس کا تقاضا ہے کہ جہاں سرحدوں پر نگرانی کا عمل سخت کیا جائے وہاں جہاں جہاں یہ اشیاء دستیاب ہوںان کے فروخت کنندگان سے بھی ان اشیاء پر ڈیوٹی کی ادائیگی کے حوالے سے ذمہ داری عائد ہونی چاہئے اور ان کو پابندبنانا چاہئے کہ وہ صرف ان اشیاء ہی کی فروخت کے مجاز ہوں گے جن پر ڈیوٹی کی ادائیگی کی گئی ہو بصورت دیگر وہ سمگلنگ کا مال خریدنے کے مرتکب گردانے جائیں گے حکومت کو اب اس امر پر بطور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ملک میں ایسے سامان اور مال و اشیاء کی تیاری کا معقول انتظام ہو جس کی مارکیٹ بنی ہوئی ہے معیاری اشیاء کی تیاری اور مارکیٹ میں طلب پوری کرکے سمگلنگ اور درآمدی اشیاء کے استعمال کی عملی حوصلہ شکنی ممکن ہو گا اور اگر صورتحال استعمال شدہ درآمدی اشیاء ملک میں تیار نئی مصنوعات سے بہتر ہونے ہی کی رہی تو پھر خود ہمیں سوچنا چاہئے کہ لوگ برآمدی اشیاء کو فوقیت دینے پر مجبور کیوں ہیں اور اصل مسئلہ کیا ہے ۔
فرض شناسی کی روشن مثال
شدت پسندوںکا نشانہ بننے کے خطرے اور سخت بارشوں کے باوجود پولیو کے قطرے پلانے والی خواتین رضا کاروں او ران کے محافظ پولیس اہلکاروں کی گھنٹوں گھنٹوں پانی میں ڈوبے فرائض کی ادائیگی باقی سرکاری ملازمین کے لئے قابل تقلید مثال قابل صد تحسین امر اور فرض شناسی کی انتہا ہے اس طرح کا عملہ شاباشی اور اضافی اعزازیہ کا بجا طور پر مستحق ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اس کے باوجود ان کو بروقت اعزازیہ کی ادائیگی کی زحمت نہیں کی جاتی الٹا ایئرکنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھے افسران ان کی حق تلفی ہی نہیں کرتے بلکہ فنڈز ڈکار جانے کی بھی اطلاعات ہیں ستم بالائے ستم یہ کہ جہاں فرض شناسوں کا کوئی پرسان حال نہیں وہاں ان کواعزازیہ سے محروم رکھنے والوں اور خاص طور پر فنڈز میں مبینہ خورد برد کے مرتکب ضلعی پولیس افسران سے حساب کتاب لینے والا کوئی نہیں۔ خود ہی اس کا اندازہ لگایئے کہ جہاں فرض شناسی جرم و تقصیر اور بدعنوانی یا پھر کم از کم ارتکاب غفلت کوئی عیب ہی نہ ٹھہرے وہاں خیر کی کیا توقع ہو سکتی ہے اس کے باوجود یہ خواتین رضا کار اور محافظ پولیس اہلکار خطرات اور موسمی شدائد سے بے پرواہ ہو کر جس جانفشانی سے خدمات انجام دے رہے ہیں یہ بجا طور پر ہمارے قومی ہیرو ہیں جن کی فرض شناسی کی تحسین نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔پولیو مہم کی تشہیر پرکروڑوں روپے خرچ کرنے اور افسران کو نوازنے کی بجائے اگر ان کو بروقت اعزازیہ کی فراہمی ہی یقینی بنائی جائے تو غنیمت ہو گی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ روزنامہ مشرق کی گزشتہ روز کی صفحہ آخر پر شائع تصویر کو فریم کروا کر سرکاری دفاتر میں فرض شناسی کا مظاہرہ کرنے والوں کی تحسین کے لئے آویزاں کیا جائے گا اور پولیو عملے اور ان کے محافظ پولیس اہلکاروں کو بروقت معاوضہ کی ادائیگی میں آئندہ غفلت نہ ہوگی۔جن پولیو ورکرز اور پولیس اہلکار کی تصویر شائع ہوئی ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ ان کو ان کی فرض شناسی پر نقد انعام اور توصیفی اسناد سے نوازا جائے تاکہ ان کے ساتھ دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی ہواور وہ مزیدجانفشانی کے ساتھ فرائض کی انجام دہی کی طرف متوجہ ہوں۔

مزید پڑھیں:  صوبے کے مفادات کا کسی کو خیال بھی ہے