معاشی ترقی میں اُردو زبان کی اہمیت

ایسے کون سے عوامل ہیں جو معاشی ترقی کا سبب بنتے ہیں؟ محفل میں شامل ہوتے ہی میری سماعتوں سے یہ آواز ٹکرائی۔ آج مجھے تاخیر تو نہ ہوئی تھی لیکن گفت گو پہلے ہی سے جاری تھی۔ بہت سے معاشی اور غیر معاشی عوامل معاشی ترقی کا سبب بنتے ہیں۔ میرے تشریف رکھتے ہوئے علم معاشیات کے جواباً یہ کہا۔اور میں نے شاید پہلے بھی بیان کیا ہے کہ معاشی ترقی کے جو عوامل ہیں ان میں سے ایک کسی خاص علاقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے درمیان بولے جانے والی زبان بھی ہے۔ لیکن مجھے حیرت ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ کیوں کہ زبان کا تعلق ثقافت سے ہے معیشت سے نہیں اور معاشی ترقی تو صرف معاشی عوامل کی بدولت ہی ممکن ہو سکتی ہے جیسے ثقافتی ترقی کے لیے ثقافتی عوامل کا ترقی پانا ضروری ہے۔ مخاطب نے ایک ہی سانس میں اتنا کچھ کہ دیا۔ گو معیشت کی ترقی معاشی عوامل کے مرہونِ منت ہے لیکن اس ترقی کو ثقافتی، سیاسی یا دیگر عوامل بھی ضرور متاثر کرتے ہیں۔ علم معاشیات نے خندہ پیشانی سے بات جاری رکھی۔ اگر آپ ثقافتی اعتبار سے ترقی پسند نہ ہوں تو رجعت پسندی کے باعث آپ تکنیکی جدت کو اختیار نہیں کریں گے یوں جو مرضی کر لیں ثقافتی رکاوٹ معاشی ترقی نہیں ہونے دے گی۔ شرکاء کا انہماک دیدنی تھا۔ پھر آپ زبان کو معاشی ترقی کا ذریعہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اُسی جانب سے پھر سوال ہوا۔ چوں کہ زبان الفاظ کا مجموعہ ہوتی ہے اور یہ ایسا ہتھیار ہے جو ایک کے جذبات (زبانی یا تحریری) دوسرے کو منتقل کرنے کا سبب بنتا ہے۔علم معاشیات نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ جیسے کہ اُستاد اپنے شاگردوں کو کسی بھی علم سے روشناس کرانے کے لیے کسی معروف ثقافتی زبان کا سہارا لیتا ہے تا کہ اُس کے شاگرد اُس کی بات سمجھ جائیں۔ آپ تاریخِ انسانی کا مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اقوام کی معاشی یا سیاسی ترقی علمی ترقی کے مرہونِ منت ہے لیکن صرف اُسی صورت میں جب کہ علوم کو مروجہ دیسی یا معروف زبان میں پڑھایا گیا ہو۔ علمِ معاشیات نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ایک مثال لیجئے دُنیا میں معبوث ہونے والے انبیاء کرام نے تبلیغ کا کام جس بھی معاشرے میں کیا اس معاشرے کی رائج الوقت زبان میں ہی کیا، کسی نے عبرانی میں تعلیم ِ دین دی تو کسی نے سریانی میں جب کہ یہ زبانیں اس معاشرے کی رائج معروف زبانیں تھیں۔ اس سلسلے کی آخری کڑی خاتم الانبیاء حضور ۖ ہیں اور وہ عرب معاشرے میں معبوث ہوئے اور آپۖ نے تبلیغ دین کا کام عربی زبان میں ہی کیا جو کہ اس معاشرے کی رائج معروف زبان تھی نہ کہ کسی دوسری زبان میں اور نتیجتاً وجود میں آنے والے ریاست ِ مدینہ کی اقتصادی نہج کا اندازہ کریں۔ اُس دور میں روم اور فارس دو عظیم ترقی یافتہ طاقتوں کا دنیا میں راج تھا کیا ان کی زبانوں کو عرب میں تبلیغِ دین کے لیے استعمال کیا گیا؟ علم معاشیات کا انداز سوالیہ تھا۔شرکاء نے خاموش رہتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔پھر مابعد عباسی دورِ حکومت کے دوران میںیونانی علوم کو یہ کہہ کر کہ ترقی کی خاطر یونانی علوم کو یونانی زبان میں پڑھایا جانا ضروری ہے، زور نہیں دیا گیا بلکہ اُن علوم کو ایک خاص علمی طبقے نے حکومتی سرپرستی میں عربی زبان میں منتقل کیا اور پھر عربی میں اُن علوم کی تعلیم دی گئی جس کے نتیجے میں امام غزالی(علم التعلیم)، جابر بن حیان(علم کیمیا)، بوعلی سینا(علم طب)، ابن الہیثم(علم طبعیات)، ابن خلدون (علم اقتصاد) اور نہ جانے کتنے عظیم نام دنیا میں پیدا ہوئے۔ جدید سائنسی ترقی کی بنیاد عربوں نے رکھی جس کے دو اہم مراکز بغداد اور قرطبہ تھے اور یہاں تدریس کا سارا عمل اپنی زبان (عربی)میں ہوتا اور یوں اُس دور میں زبردست معاشی ترقی ہوئی جس کا نتیجہ ہیں سوئی چھید کیمرہ، نت نئے کیمیائی مواد،الحمرائ، دارالحکمت بغداد، جامعہ قرطبہ اور جانے کیا کیا۔ پھر اسی ترقی کا اثر یورپ نے قبول کیا لیکن علوم کو عربی میں پڑھانے کی بجائے اپنی اپنی زبانوں میں منتقل کیا جو آج یورپی اقوام کی ترقی کی صورت میں ظاہر ہے۔ آپ جاپان، چین، کوریا، ترکی، جرمنی وغیرہ کی مثال لیجئے کہ ان ممالک کی جامعات میں اگر کوئی بیرونی طالب علم بھی داخلہ لیتا ہے تو وہ ممالک اُسے پہلے اپنی زبان سکھاتے ہیں اور پھر اُس کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز وہاں کی ہی قومی زبان میں ہوتا ہے نہ کہ انگریزی زبان میں۔ اِسی اپنی زبان دوستی کا لازمی نتیجہ ہے کہ ان تمام ممالک نے علمی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، سائنسی اور ہر میدان میں ترقی کی۔ تو پھر ہمارا معاشرہ یہ کیوں مانتا ہے کہ جدید ترقی کے حصول کے لیے انگریزی ہی واحد کلید ہے؟ کسی اور نے سوال کیا۔ دیکھیں برصغیر میں فارسی زبان کا راج تھا جو اُس دور میں ہماری ترقی کی کلید تھی لیکن بیرونی حاکموں نے اقتدار کی خاطراسے ختم کر کے فارسی زبان پر پابندی عائد کر دی اور انگریزی زبان کوبطور سرکاری زبان کے نافذ کر دیا۔ اُس دور میں سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو انگریزی سیکھنے کا کہا تاکہ عصرِ حاضر کے تقاضوں سے مسلمان نبردآزما ہو سکیں لیکن ان کے نزدیک بھی ہماری اپنی زبان کی اہمیت تھی اسی لیے وہ ساتھ ساتھ اُردو زبان کی ترقی کی نہ صرف کوشش کرتے رہے بل کہ کئی انگریزی علوم کو اپنی ذاتی نگرانی میں اُردو میں منتقل کروایا تاکہ آئندہ مسلمان انگریزی زبان کی بساکھیوں کے سہارے ہی نہ چلنے لگیں اور انگریزی کو ترقی کی کلید ہی نہ سمجھنے لگیں۔اگر ایسی بات نہ ہوتی تو سرسید مرحوم اپنی انجمن کے ذریعے تراجم کی بجائے مسلمانوں کو صرف انگریزی کی تدریس ہی کرتے۔مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے بھی انگریزی علوم کے اُردو تراجم کیے جن میںمعاشیات کے موضوع پر ”واکر ”کی کتاب” پولیٹیکل اکانومی ”کا اردو ترجمہ بھی شامل ہے۔اسی طرح علم معاشیات پراُن کی اپنی تصنیف” علم الاقتصاد” بھی اُردو زبان میں ہی شائع ہوئی۔ایسے ہی آدم سمتھ کی تصنیف” ویلتھ آف نیشنز” کا بھی اُردو ترجمہ” دولتِ اقوام” کے عنوان سے کیا گیا۔ یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہمارے قائدین کے ہاں بھی اُردو زبان میںہی ہماری قوم کی علمی، سماجی ، معاشی اور سیاسی ترقی کا راز مضمر ہے۔ سرسید مرحوم کی زندگی تک تو تراجم ہوتے رہے لیکن ان کے بعد کمی آئی اور اس کے بعدیہ سلسلہ ایسا منقطع ہوا کہ اب یہ حالت ہے کہ ہمارے معاشرے میں انگریزی ترقی کی علامت اور انگریزی زبان میں تعلیم کو عصرِ حاضر کی سائنسی، معاشی اور معاشرتی ترقی کا تقاضہ تصور کیا جاتا ہے۔ تو کیا یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کے نزدیک اپنی زبان ہی معاشی ترقی کا ذریعہ ہے؟ کسی کا انداز سوالیہ تھا۔ جی بالکل۔ میری ساری گفت گو کا لُب لباب یہی ہے اگر حقیقی ترقی کرنی ہے تو اپنی زبان کو مکمل اختیار کرنا ہو گا ورنہ پردیسی زبان میں صرف وقتی اور ظاہری ترقی ہی ہو سکتی ہے لیکن معاشی نکتۂ نظر سے پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول صرف اپنی زبان میں ہی تعلیم کی صورت میں ممکن ہے۔میں شکرگزار ہوں کہ آپ نے میری ذہنی گتھی کو سلجھایا۔ مخاطب نے علم معاشیات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔اُرود آج بزم موجود نہیں لیکن میں آج کی رُوداد بہ خوشی اُسے سناؤں گا۔ شرکاء میں کسی نے جذباتی انداز میں کہا تو محفل کے تمام شرکاء کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی اور یوں آج کی بزم کا اختتام ہوا۔

مزید پڑھیں:  بزرگوں اور ضعیفوں کی نفسیاتی اذیت