بجلی بلوں میں فکسڈ ٹیکس کی معطلی

وزیر اعظم شہباز شریف نے بجلی بلوں کے ذریعے فکسڈ سیلز ٹیکس کی وصولی کو فوری طور پر معطل کر کے ٹیکس وصولی کیلئے نئے لائحہ عمل مرتب کرنے اور دوکانداروں کو مشاورت میں شامل کر نے کی ہدایت جاری کی ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ماہ بجلی کے اضافی بلوں پر ہر شخص سراپا احتجاج تھا مگر تاجر برادری اور دوکانداروں کو بجلی کے جو بل بھیجے گئے تھے، چھوٹے دوکانداروں کیلئے اسے ادا کرنا آسان نہ تھا، تاجر برادری کی طرف سے اضافی بلوں پر نظر ثانی اور ٹیکس وصولی کے طریقہ کار پہ تحفظات کا اظہار کیا گیا تو وزیر اعظم شہباز شریف نے اس کا نوٹس لیا،کیونکہ کئی دوکاندار ایسے تھے جن کے30یونٹ بھی استعمال نہیں ہوئے تھے مگر انہیں ہزاروں روپے بجلی کا بل تھما دیا گیا، ایسے دوکاندار جو صرف روشنی کیلئے صرف بلب استعمال کرتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ گرمیوں میں کچھ دیر کیلئے پنکھا استعمال کر لیتے ہیں، ان کا کمرشل کام ہے مگر وسیع پیمانے پر نہیں ہے،گھر کا کام چلانے کیلئے کئی خواتین معمولی دوکان چلا رہی ہیں، ایسے افراد پر فکس ٹیکس قطعی طور پر درست اقدام نہیں ہے، بلکہ حکومت کو چاہئے کہ ایسے افراد کی حوصلہ افرائی کرنے کیلئے انہیں ریلیف فراہم کرے، تاکہ خاندان کو مالی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ سیلز کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جائے،اس حوالے سے حکومت کو تحفظات ہیں کہ دوکاندار اصل سیلز کا حساب خفیہ رکھتے ہیں اور معمولی سیلز کو ظاہر کرتے ہیں جس سے ٹیکس کے اہداف پورے نہیں ہو سکتے ہیں۔
دیکھا جائے تو حکومت کے تحفظات بلاوجہ نہیں ہیں، ہمارے ہاں ٹیکس چوری کا رجحان موجود ہے، دوکانوں پر سیلز کو کمپیوٹرائز بنانے پر کوئی کام نہیں ہوا ہے،محدود دوکانیں کمپیوٹرائز رسید فراہم کرتی ہیں،کئی دوکانوں پر جعلی رسید دے کر کام چلایا جاتا ہے جس سے سیلز کے درست اعداد و شمار سامنے نہیں آ پاتے ہیں، پاکستان کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں دیکھا جائے تو کمپیوٹرائز رسید کے بغیر کاروبار کرنا آسان نہیں ہے۔ اس حوالے سے ہر حکومت کی طرف سے ٹیکس وصولی کا کمزور نظام متعارف کرایا جاتا ہے،جس سے ٹیکس چوری کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے، ہماری دانست میں یہ خالصتاً انتظامی معاملہ ہے،نظام جو بھی ہو جب تک اس پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنایا جائے گا ٹیکس وصولی کے اہداف پورے نہیں ہو سکیں گے،اس لئے تاجر برادری کے ساتھ ٹیکس کے طریقہ کار بارے مشاورت ضرور ہونی چاہئے مگر حکومت جب تک اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی تب تک ہم ٹیکس وصولی کے اہداف میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔
سرکاری سکولوں میں ڈبل شفٹ کی اہمیت
خیبرپختونخوا کے محکمہ ابتدائی تعلیم کی جانب سے 228 ایسے سرکاری سکولوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں شام کے وقت کلاسز ہو سکیں گی، ابتدائی طور پر ان تجاویز کی منظوری کے بعد یکم ستمبر سے داخلے کے اہداف مقرر کئے گئے ہیں۔صوبے کے بچوں کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنے کیلئے صوبائی حکومت کی جانب سے سرکاری سکولوں میں ڈبل شفٹ شروع کرنے کا اقدام قابل ستائش ہے، اس اقدام سے ان بچوں کو تعلیم کے مواقع میسر آ سکیں گے جو سکولوں میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے داخلے سے محروم رہ جاتے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے بچوں کی بڑی تعداد کو مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں، سکولوں کی عمارات پہلے سے موجود ہیں، صرف شام کا عملہ اور اساتذہ کی تقرری عمل میں لانی ہو گی، اس معمولی اقدام سے اگر لاکھوں بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ وہ باعزت شہری بن سکیں گے بلکہ سکولوں سے باہر رہ کر جرائم پیشہ عناصر کے ہتھے چڑھنے کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے۔ وفاقی سطح پر کئی سرکاری تعلیمی اداروں میں شام کے وقت کلاسز کا تجربہ کامیاب رہا ہے اب صوبائی سطح پر اسے لاگو کیا جا رہا ہے تو اس کی کامیابی کے قوی امکانات ہیں، یہاں تعلیمی معیار کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ عام تاثر یہ ہے کہ سکینڈ شفٹ والے تعلیمی اداروں میں وہ معیار تعلیم نہیں ہے جو فرسٹ شفٹ میں ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں ، اگر خیبرپختونخوا میں یہ تجربہ ہونے جا رہا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ جن اساتذہ اور عملے کی تعیناتی کی جائے ان پر واضح کیا جائے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پوری ایمانداری کے ساتھ نبھائیں گے اگر سکینڈ شفٹ میں بھرتی ہونے والے اساتذہ صرف وقت گزاری کیلئے سکول آ کر چلے جائیں گے تو بچوں کو معیاری تعلیم فراہم نہیں کی جا سکے گی، اس سے ایک جانب فنڈز کا ضیاع ہوگا جبکہ دوسری جانب معصوم بچوں کا مستقبل بھی دائو پر لگ جائے گا لہٰذا اس بات کو مدنظر رکھ کر یہ تجربہ کیا جائے تو بہت بہتر ہوگا۔

مزید پڑھیں:  سرکاری ریسٹ ہائوسز میں مفت رہائش