سیاسی سطح پر اداروں کی بے توقیری کا رجحان

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اسلام آباد میں ریلی سے خطاب میں کہا ہے کہ شہباز گل پر تشدد کر کے تحریک انصاف کو ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، انہوں نے آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد کا نام لیکر انہیں مبینہ دھمکی دی کہ ہم تمہیں نہیںچھوڑیں گے، مجسٹریٹ زیبا چوہدری پر شدید تنقید اور کیس کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ عمران خان نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلسل احتجاج کریں گے کیونکہ عوام ان کے ساتھ ہے، عمران خان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف اور فوج کو لڑانے کی سازش ہو رہی ہے، اگر تصادم ہوا تو خونریزی ہوگی۔
عمران خان ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں، ان کا منصب تقاضا کرتا ہے کہ وہ ملک کو انتشار اور انارکی کی طرف نہ لے جائیں، اگر ان کی نظر میں شہباز گل پر ماورائے عدالت تشدد ہوا ہے تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں، کیونکہ انہی عدالتوں سے کئی بار انہیں ریلیف حاصل ہوا ہے، انہی عدالتوں نے مخالفین کو جیلوںمیں ڈالا اور ان کے خلاف سزائیں سنائی گئی ہیں، نواز شریف وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود انہی عدالتوں سے تاحیات نا اہل ہو چکے ہیں،اُس موقع پر عمران خان نے عدلیہ کا شکریہ ادا کیا تھا، مگر اب خود ہی ایسا راستہ اپنا رہے ہیں جو اداروں کی بے توقیری کا ذریعہ بن رہا ہے، عمران خان اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے رہنمائوں کو سیاسی انتظام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو انہیں عدالتوں سے رجوع کرنا چاہئے، اس سے ان کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہو گا اور عوام کی حمایت بھی حاصل ہو گی، لیکن اگر انہوں نے جارحانہ انداز اپنائے رکھا تو قانون شکنی کے مرتکب ٹھہریں گے،کیونکہ آئی جی، ڈی آئی جی اور مجسٹریٹ کو دھمکیاں دینے کا مطلب ہے کار سرکار میں رکاوٹ ڈالنا، یہ آئین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے، یوں دیکھا جائے تو ایک طرف عمران خان مخالفین پر الزام عاید کر رہے ہیں کہ شہباز گل پر ماورائے عدالت تشدد کیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف قومی اداروں کے سربراہان کو دھمکی دے کر خود بھی ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو ماورائے آئین اور قانون شکنی میں آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے دور حکومت میں سیاسی حریفوں کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے۔ انہیں کئی ماہ تک قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑا، سیاسی رہنماؤں کو نوٹس جاری کئے اور بتائے بغیر اچانک گرفتاری عمل میں لائی جاتی، چند دن تفتیش ہوتی، ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بار بار ریمانڈ حاصل کئے جاتے جس سے سیاستدانوں کی بے توقیری ہوتی ، مگر اس وقت چونکہ تحریک انصاف حکومت میں تھی اس لئے سیاسی حریفوں کو خوب انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا گیا، سیاسی حریفوں کی گرفتاریوں کیلئے پولیس کو استعمال کیا گیا، اب تحریک انصاف اقتدار سے باہر ہے تو یہی کام موجودہ حکومت بھی کر رہی ہے، جس طرح تحریک انصاف کی جانب سے اٹھائے جانے والے ماورائے قانون اقدامات کی حمایت نہیں کی جا سکتی اسی طرح موجودہ حکومت کی جانب سے ماورائے قانون اقدامات کی حمایت نہیں کی جا سکتی ہے، تاہم پاکستانی تاریخ یہ کڑوا سچ ہے جسے کوئی بھی جماعت ترک کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہے۔آئین کی بالا دستی اسی میں ہے کہ اداروں میں سیاسی مداخلت نہ کی جائے، بدقسمتی کی بات ہے کہ ہر دور حکومت سیاسی مداخلت سے پاک نہیں ہے، اہل سیاست کی یہ روش سیاسی انتقام کو رواج دیتی ہے، اور حکومت قائم ہوتے ہی وزیر داخلہ ایسے شخص کو لگایا جاتا ہے جو منتقم المزاج ہو۔ سیاسی جماعتوں کی دیدہ دلیری کو سمجھنے کیلئے عمران خان کا یہ بیان کافی ہے کیونکہ ابھی وہ حکومت سے باہر ہیں تو آئی جی اور مجسٹریٹ کو دھمکیاں دے رہے ہیں جب وہ حکومت میں آئیں گے تو مذکورہ افسران کے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے اس کا اندازہ لگانے کیلئے افلاطون کی عقل کی ضرورت نہیں ہے۔ سیاستدانوں کی جانب سے قومی اداروں کی بے توقیری اور نظام عدل پر اثر اندازہ ہونے سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے جس سے اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے مجسٹریٹ اور آئی جی و ڈی آئی جی کو دھمکی دیئے جانے کے بعد پیمرا نے ان کا خطاب لائیو دکھانے پر پابندی عاید کر دی ہے، جبکہ انسداد دہشگردی ایکٹ کے تحت ان پر مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے، اسی طرح پی ٹی اے بھی تحریک انصاف کی سوشل میڈیا پر کوریج کیلئے لائحہ عمل تیار کر رہا ہے، قومی اداروں کے اقدامات سے لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کو طویل قانونی جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا، قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے عمران خان اداروں پر دبائو ڈال کر اور عوامی جلسوں کے ذریعے فوری ریلیف چاہتے ہیں، ایسا ہونا آسان نہیں ہے،کیونکہ جو کیسز بن چکے ہیں، وہ عدالتوں سے ہی ختم ہو سکتے ہیں،اس لئے بہتر یہی ہو گا کہ عمران خان انتظار کریں، مقدمات کا سامنا کریں اور سیاسی انتقام کی جنگ سڑکوں پر لڑنے کی بجائے عدالتوں میں لڑیں،جب اعلیٰ عدالتیں انہیں ریلیف دے دیں گی تو پھر حکومت کے پاس تحریک انصاف کے رہنمائوں کو گرفتار کرنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔

مزید پڑھیں:  بزرگوں اور ضعیفوں کی نفسیاتی اذیت