ریگی للمہ انگیجڈ لیکچررز اور بنوں لائبریری

آبادی میں اضافہ در اضافہ کے ساتھ جہاں دیگر مسائل کا انبار لگ رہا ہے وہاں رہائشی مسائل بصورت مکانات اور رقبہ و اراضی برائے تعمیر مکانات اور شہری علاقوں میں پلاٹوں کی ضرورت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کا فائدہ بلڈر مافیا اور ہائوسنگ سوسائٹی کے نام پر جو لوٹ مار ہو رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے پشاور میں اراضی باقی نہ رہی تو چارسدہ و نوشہرہ کے علاقوں کو بھی پشاور قرار دے کر یاپھر کم از کم پشاور کا نام استعمال کرتے ہوئے یہ ظاہر کیا جارہا ہے جیسا کہ یہ پشاور میں واقع ہوں حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حکومت بھی ان سے تعرض نہیں کرتی ایک مرتبہ تو ایک جعلسازی کی کوشش پر جب پی ڈی اے نے واضح مراسلہ جاری کرکے عوام کو بروقت خبردار کرنے کی ذمہ داری نبھائی تو ان کو مراسلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا گیا گویا عوام کو خبر اور آگاہ کرنے کی ذمہ داری جرم ٹھہرا لمبے ہاتھ رکھنے والے عناصر کا بااثر ہونا اور ان کی کارستانیاں آج کا موضوع نہیں اتنا کہوں گی کہ جو لوگ جمع پونجی سے کوئی پلاٹ یا تیار گھر و فلیٹ لینے کا ارادہ رکھتے ہوں وہ کم از کم اتنی معلومات تو حاصل کریں کہ بعد میں پچھتاوا نہ ہو۔ حصول پلاٹ برائے تعمیر مکان کے لئے سرکاری سکیموں کو محفوظ سمجھا جاتا ہے یقینا ایسا ہی ہے لیکن ایک تکلیف دہ مثال ریگی للمہ ٹائون شپ کے بارے میں ہے جس کے بعد پی ڈی اے اور سرکاری رہائشی سکیموں کے حوالے سے بھی عوام کا اعتماد مجروح ہوا ہے اس حوالے سے ایک برقی مراسلہ بلا تبصرہ ملاحظہ ہو ۔
یہ مسئلہ انفرادی نہیں بلکہ ہزاروں خاندانوں کا مسئلہ بن چکا ہے پچھلے تیس سالوں سے اپنے حق کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں مگر مطالبات پورے ہوتے نظر نہیں آتے ۔
ریگی ماڈل ٹائون پشاور خیبر پختونخواہ کا سب سے بڑا اور پرانا ہائوسنگ سوسائٹی ہے ۔ یہ پانچ زونز پر مشتمل ہے ۔ جن میں دو زون یعنی زون 3 اور 4آباد ہیں ۔ باقی تین زونز 1۔2اور 5 زونز کے متاثرین کو آج تک اپنے پلاٹوں کی پوزیشن(قبضہ)نہ مل سکا ۔صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت کا یہ دسواں سال ہے لیکن اس حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں لے رہی ۔ بہت سارے اپنے پلاٹوں کے قبضے اور یہاں گھر بنانے کا خواب دیکھتے دیکھتے اس دنیا سے چلے گئے ۔
سرکاری اداروں کی بات ہو رہی ہے تو ایک معروف کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے کے بعد اس کالج کے معیار اور یونیورسٹی کے قیام کا ناکام تجربہ کا بھی ذکر ہو جائے جامعات کی عمومی طور پر حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں اس حوالے سے اکثر و بیشتر کالم میں بات ہوتی رہی ہے اب اس معروف کالج کے نام پر قائم جامعہ میں اساتذہ خاص طور پر لیکچرر جن کو ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا مختصراً بڑی بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ بجائے جوہر قابل تلاش کرکے مستقل یا کم از کم طویل کنٹریکٹ جو تسلسل کے ساتھ بار بار جاری رکھنے کا ہو بجائے وزیٹنگ کے نام پر جو صورتحال چل رہی ہے اس بارے ہمارے مراسلہ نگار کا یہ جملہ کافی ہے کہ جن کا اپنا مستقبل محفوظ نہ ہو وہ بچوں کے محفوظ مستقبل کے لئے کیا تگ و دو کریں ۔ مراسلہ ملاحظہ فرمائیںاس وضاحت کے ساتھ کہ یہ مراسلہ کچھ دن قبل کا ہے اور ٹیسٹ انٹرویو ہو چکے ہوں گے اس کی اشاعت کا مقصد صرف وہ تصویر پیش کرنا ہے جو کم و بیش صوبے کے ہر جامعہ میں مروج ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں میڈیا میں آنے والا اشتہار اس مراسلے کی بنیاد ہے اگر یہ اشتہار درست نہ تھا تو اس کی وضاحت آجانی چاہئے تھی بہرحال صداقت سے قطع نظر کم و بیش یہ تمام جامعات کی صورتحال کا پر تو ہے ۔
اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کا یہ اشتہاراس بات کاثبوت ہے کہ یہ ادارہ مالی بحران کا شکارہے۔اشتہار میں وزیٹنگ اساتذہ سے درخواستیں اس شرط پر طلب کی گئی ہیں کہ ہر امیدوار درخواست کیساتھ ایک ہزار روپیہ جمع کرے گا مراسلہ نگار کے مطابق اس طریقہ سے کالج کی آمدنی کا تخمینہ ایک کروڑ روپے رکھا گیا ہے یہ بے روزگار نوجوانوں کو لوٹنے کے مترادف ہے۔یہ پوسٹیں ایڈہاک بھی نہیں بلکہ وزیٹنگ ہیں ان کو کسی بھی وقت فارغ کیا جاسکتا ہے۔اس فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ ان سے اپنے متعلقہ مضمون کے علاوہ مستقل ٹیچرز اپنے مضامین بھی پڑھاتے ہیں اوروہ یا اکیڈمیوں میں پڑھاتے ہیں یا کوئی دوسرا کاروبار کرتے ہیں۔ایک اور بات جو سب سے زیادہ لاڈلا ہوتا ہے اسے تیس اپریل یا اکتیس مئی کو فارغ کیا جاتا ہے دیگر کو کسی بھی وقت گھر بھجوایا جاسکتا ہے۔ان کو انگیجڈ لیکچرر کا نام بھی دیا جاتا ہے یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ٹیچر کو اپنے مستقبل کا علم نہیں وہ طلبہ کا مستقبل خاک سنواریں گے ۔ اسلامیہ کالج معاشی طور پر برباد ہو چکا ہے۔اس کے کروڑوں کے اثاثے کہاں گئے؟؟۔پورا اسلامیہ کالج اب مستقل بنیادوں کی بجائے ٹھیکیداری نظام کے طرز پر چلایا جارہا ہے جو ایک المیہ سے کم نہیں۔ایک ایسے وقت میں جب بنوں میں فیملی پارک بند کرنے کے لئے احتجاج ہو رہا ہے وہاں سے ہمارے ایک قاری کا مراسلہ ملا ہے کہتے ہیں کہ تعلیمی ناآشنائی ،مطالعے کی عدم دلچسپی اور مطالعے کے لئے پبلک لائبریریوں کا فقدان سب سے بڑے وجوہات ہیں یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ جن اقوام نے کتاب قلم کی دوستی نبھائی ہے دنیاپہ آج انہی اقوام کی حکمرانی ہے اوراس کے برعکس جن اقوام کی ہاتھوں کتاب قلم کی ابروریزی ہوئی ہے وہ غلامی اورماتحتی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہوئیں۔ پاکستان بلاشبہ ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں صرف یونیورسٹی لائبریریوں اور چند پبلک کتب خانوں کو فنی لحاظ سے تسلی بخش کہا جا سکتا ہے لیکن ان کتب خانوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے لہٰذا یہ دردمندانہ درخواست ہے کہ ہمارے مقامی طورپر بازار سورانی میں ایک لائبریری کاقیام عمل میں لایا جائے کیونکہ بد قسمتی سے پبلک لائبریری نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے نوجوان اپنا قیمتی وقت اخباری بینی یا کتاب بینی کے بجائے فیس بک پر،چائے سٹالز پر،شطرنج کھیلنے، موٹر سائیکل ریسینگ اور غیر تعمیری سرگرمیوں میں ضائع کرتے ہیں جو ایک المیہ ہے اگر یہاں پر پبلک لائبریری کا قیام عمل میں لایا جائے تو دیکھیں کیسے معاشرہ مثبت سمت اختیار نہیں کرتا۔
قارئین اپنے پیغامات 03379750639 پر واٹس ایپ ‘ کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  دبئی میں اربوں کی جائیدادیں!