غریبوں کا مال مسروقہ اور آئی ایم ایف

آئی ایم ایف کی شرط کے تحت حکومت نے ارکان پارلیمنٹ اور بیوروکریسی کے اثاثوں کی تفصیلات تک عوام کو رسائی دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔حکومت نے قرض پروگرام کے تحت1.17 ارب ڈالر کی دو اقساط کے حصول کے لئے بھجوائے گئے لیٹر آف کنٹینٹ میں آئی ایم ایف کو اس شرط پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرادی ہے ۔اس شرط پر عمل درآمد کے تحت بیوروکریسی کے منقولہ وغیر منقولہ اثاثوں کو پبلک کیا جائے گا ۔گریڈ سترہ سے بائیس تک ملازمین کے بیوی بچوں کے اثاثوں کی تفصیلات بھی ظاہر کی جائیں گی۔ ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوںکی تفصیلات تک بھی شہریوں کو رسائی حاصل ہوگی ۔خفیہ اثاثے سامنے آنے کی صورت میں کاروائی کی جائے گی ۔آئی ایم ایف کی اس شرط سے لگتا ہے کہ کسی حد تک ان کی توجہ قرض کی رقوم کے غلط استعمال اور ضیاع کی طرف مبذول ہو گئی ہے۔پاکستانیوں کی نسلیں آئی ایم ایف کے قرض لینے اور لوٹانے میں بوڑھی ہو چکی ہیں مگر اتنے طویل عرصے کے بعد آئی ایم ایف نے اس قرض کے شفاف استعمال کے حوالے سے حکومت پاکستان کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبو ر کیا۔یہ تاثر عام رہا ہے کہ آئی ایم ایف کا قرض ہو یا کسی بیرونی ملک کی کوئی اور مالی اعانت اور عنایت انہیں رقم دینے میں دلچسپی رہی ہے اس کا شفاف استعمال ان طاقتوں اور اداروں کا مسئلہ نہیں رہا ۔اس ڈھیل نے کرپشن کے فروغ اور اسے ایک ثقافت بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔آئی ایم ایف کو صرف اس بات سے غرض رہی کہ اسے بروقت قسط مل جائے ۔امداد دینے والے ملکوں کی دلچسپی کسی وقتی مفاد یا پاکستان کی رائے عامہ میں اپنا دوستانہ امیج بنانے سے ہوتی رہی ۔ان کی دی گئی رقم کسی کی ذاتی جیب میں چلی جاتی ہے یا زمین پر لگتی ہے ان کی بلاسے۔ان رویوں نے پاکستان میں حکمران طبقات اور افسر شاہی کو قومی خزانے کے درست اور جائز استعمال سے بے نیاز کر دیا ۔ان رویوں نے کرپشن کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں کرپشن کوئی مسئلہ اور موضوع ہی نہیں رہا ۔جب بھی کرپشن کے خلاف عوامی حساسیت کا ماحول بنانے کی کوشش ہوئی طاقتور سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں نے اس دبائو کو ناکام اور بے کار کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔آج کرپشن کوئی مسئلہ نظر آتی ہے تو اس میں کچھ سخت جان لوگوں کی محنت شامل ہے ۔اب آئی ایم ایف کے اصرار پر حکومت ارکان پارلیمنٹ کے اثاثے ظاہر کرنے کی پابند ہوگی مگر اس سے بہت پہلے ہی پاکستان کے طاقتور حلقے اور تجربہ کار افسر شاہی اس مسئلے کا آسان حل ڈھونڈ چکی ہے وہ ہے ۔اہل خانہ قریبی رشتہ داروں یا ماتحت ملازمین کے نام پر اثاثے جمع کرنا ہے ۔ہمارے ہاں تو یہ کام ایک باقاعدہ سائنس بن چکاہے اسی لئے تو فالودے والے پاپڑ والے سے ایک شناختی کارڈ حاصل کرکے انہیں کاغذات اور تصورات کی دنیا میں کروڑ پتی بنایا جاتا رہا ۔لکشمی ان کے آنگن تو اُترتی رہی مگر چھوئے بغیر ہی واپس اُڑن چھو ہوتی رہی ۔دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی ماہرین آئی ایم ایف کی اس شرط کو کس مہارت سے بے اثر بناتے ہیں ۔اس سے بھی بڑا مسئلہ عالمی سطح پر درپیش ہے۔وہ ہے پسماندہ ملکوں کی دولت کی بڑے اور مضبوط معیشت کے حامل ملکوں میں منتقلی ۔دنیا میں مہذب کہلانے والے کئی ممالک غریب ملکوں کے عوام کے ٹیکسوں سے چرائی ہوئی دولت کے لئے محفوظ جنت بن کر رہ گئے ہیں ۔اپنے ملکوں میں کرپشن کو برداشت نہ کرنے والے یہ ممالک اپنے رویے سے پسماندہ ملکوں میںکرپشن کی سرپرستی کرتے ہیں ۔پاکستان جیسے ملکوں سے طاقتور مافیاز دولت اکٹھی کرتے ہیں پھر کیرئر ز کے ذریعے بیرونی دنیا میں منتقل کرتے ہیں ۔اس دولت کو یا تو بینکوں میں رکھنے یا جائیدادیں خریدنے کے عمل میں سہولت کار بن جاتے ہیں۔اس طرح نحیف ونزار جسموں سے خون نچوڑ کر یہ اپنی پہلے سے مضبوط اور توانا نسوں میں بھرتے ہیں ۔ان میں تمام ممالک اس بات سے باخبر ہوتے ہیں کہ ان کی حدو د میں جو دولت آرہی ہے قطعی ناجائز اور کالا دھن ہے ۔اس کے باوجود وہ اس دولت کے مالک سے اس کے ذرائع نہیں پوچھتے ۔ظاہر ہے انہیں اس سے غرض نہیں کہ یہ دولت بھتے کی پرچی سے اکھٹی کی گئی یا کنپٹی پر بندوق رکھ کر جمع کی گئی ہے ۔زمینوں پر قبضوں کے ذریعے حاصل کی گئی یا نوکریاں فروخت کرکے ۔انہیں خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ رقم ان کی معیشت کی رگوں میں دوڑنے والے خون کا حصہ بن رہی ہے ۔جب کوئی ملک ا س ناجائز دولت تک پہنچنے اور اسے واپس حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اکثر کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔مہذب ممالک اس ناجائز دولت کے سرپرست بن جاتے ہیں ۔عمران خان نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے بڑی طاقتوں کے اس تضاد اور رویے کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرائی تھی مگر اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہ ہوا ۔شاید تھوڑی بہت شرمندگی محسوس کی گئی ہو مگر اس حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا گیا ۔آئی ایم ایف اگر ناجائز دولت کی ترقی یافتہ ممالک کی جانب منتقلی کے حوالے سے کچھ اقدامات اُٹھائے تو شاید غریب ملکوں کے معاشی حالات میں کچھ بہتری آئے ۔

مزید پڑھیں:  سرکاری ریسٹ ہائوسز میں مفت رہائش