تقریر مقدمہ اور حفاظتی ضمانت

آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کی عدالت میں عدم حاضری کے باوجود ان کی تین روزہ حفاظتی ضمانت منظور کرلی ہے یہ فیصلہ یقینا مستقبل میں بطور مثال پیش کیا جاتا رہے گا ۔ مقدمہ اور حفاظتی ضمانت کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا)نے چنددن قبل کی ایک شام اسلام آباد میں ایک احتجاجی ریلی سے خطاب کے دوران نامناسب الفاظ کے استعمال ، آئی جی اسلام آباد، ڈی آئی جی اور خاتون مجسٹریٹ کے بارے میں قابل اعتراض ریمارکس کا نوٹس لیتے ہوئے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمر ان خان کی ٹی وی چینلز پر لائیو تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی ، پیمرا کے نوٹیفکیشن کے مطابق ٹی وی چینلز عمران خان کی ریکارڈ شدہ تقاریر نشر کر سکیں گے ، گزشتہ دنوں اپنے معاون شہباز گل پر مبینہ پولیس تشدد اور ان سے جنسی زیادتی کے اپنے الزام کے بعد سابق وزیراعظم نے اسلام آباد میں احتجاجی ریلی نکالنے کا اعلان کیا تھا اس اعلان سے اگلی شب احتجاجی ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ملک میں خون ریزی کا خطرہ ہے، پی ٹی آئی اور فوج میں تصادم کی سازشیں ہو رہی ہیں نیوٹرل کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ عوام کے ساتھ ہیں یا پھر چوروں کے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہباز گل پر مقدمہ ہو سکتا ہے تو نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور رانا ثنا اللہ پر بھی مقدمہ کرینگے ریلی سے خطاب کے دوران انہوں نے شہباز گل پر مبینہ تشدد اور بعض دوسرے الزامات کو بھی دہرایا، سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ فوج ملک کو اکٹھا کر سکتی تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتاانہوں نے سوال کیا کہ پولیس نے شہباز گل پر تشدد نہیں کیا تو پھر کس نے کیا؟ سابق وزیراعظم کے لائیو خطابات پر پابندی اور ریکارڈ شدہ خطاب نشر کرنے کی اجازت سے متعلق پیمرا کے نوٹیفکیشن کے حوالے سے شروع ہوئی بحث میں پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ یہ آزادی اظہار پر حملہ ہے، حکمران عمران خان کی عوامی مقبولیت سے بوکھلا اٹھے ہیں، دوسری طرف وفاق میں برسراقتدار حکمر ان اتحاد کے رہنمائوں نے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا ، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ شہدا کی توہین کریں، بغاوت پر اکسائیں ، ریاستی رٹ کو چیلنج کریں اور قانونی کارروائی نہ ہو، درست بات یہ ہے کہ عمر ان خان کے گزشتہ دنوں احتجاجی ریلی سے خطاب کے بعض الفاظ کی تائید نہیں کی جا سکتی، سیاستدان اور خصوصاً وزیر اعظم کے منصب پر پونے چار برس فائز رہنے والی شخصیت کو یہ امربہرصورت مدنظر رکھنا چاہئے کہ آز ادی اظہار کی نہ صرف حدود طے ہیں بلکہ ان حدود کی پامالی سے انارکی پھیلتی ہے،جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شہباز گل پر مقدمہ ہو سکتا ہے تو نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، رانا ثنا اللہ اور دوسروں پر کیوں نہیں؟ تو ان کی توجہ اس امر کی جانب دلائی جانی چاہئے کہ وہ پونے چار برس تک ملک کے وزیراعظم رہے ان کی حکومت کو کس نے مندرجہ بالا شخصیات کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی سے روکا تھا؟ اس سوال کو اگر ان کی چند دن قبل کی ایک تقریر کے تناظر میں دیکھیں تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ اگر وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ ایک بے اختیار وزیراعظم ہیں ادارے ان کے کنٹرول میں نہیں تو پھر انہیں کسی تاخیر کے بغیر مستعفی ہو کر عوام کے درمیان جانے کا فیصلہ کرنا چاہئے تھا، وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد سابق وزیراعظم ان کے حامی پارٹی رہنمائوں کا بڑا حصہ اور سوشل میڈیا پر ان کے ہمدرد ریاستی محکموں اور شخصیات کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں اس کی تائید نہیں کی جاسکتی، 26سال سے سیاسی عمل میں موجود شخصیت جو ملک کے سب سے بڑے منتخب منصب وزارت عظمی پر پونے چار سال تک فائز رہی ہو بھی اگر گفتگو اور تقاریر سے قبل شعوری طور پر یہ سمجھنے کی کوشش نہ کرے کہ کیا کہنا درست اور کیا غلط ہوگا تو اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، سیاستدان کو بولنے سے پہلے اپنے الفاظ کے معنی اور اس کے نتائج ہردو کو مدنظر رکھنا چاہئے، گزشتہ دنوں کی اپنی ایک متنازعہ تقریر میں(اس تقریر پر ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا اسی مقدمہ میں انہیں پیش ہوئے بغیر حفاظتی ضمانت دی گئی)انہوں نے کہا کہ ملک میں خون ریزی کا خطرہ ہے اور یہ کہ پی ٹی آئی اور فوج میں تصادم کی سازش ہو رہی ہے، اصولی طور پر انہیں خون ریزی کے خدشے کی وضاحت کے ساتھ ان سازشی عناصر کی بھی نشاندہی کرنا چاہئے جو بقول ان کے پی ٹی آئی اور فوج میں تصادم چاہتے ہیں، سابق وزیرا عظم اپنے جس معاون کی گرفتاری پر برہم اور اس پر تشدد وجنسی زیادتی کے الزامات لگا رہے ہیں اسی معاون نے ایک ٹی وی پروگرام میں فوج کے نچلے درجہ کے افسروں کو اپنے سینئرز کے احکامات نہ ماننے کے لئے کہا تھا ، کیا یہ بیان سیاسی اخلاقیات اور آزادی اظہار کے عین مطابق ہے؟ گزشتہ شب ہی نہیں وہ اپنی اکثر تقاریر انٹرویوز اور بیانات میں الفاظ کے چنائو میں احتیاط نہیں کرتے جس سے ہمیشہ تنازعات جنم لیتے ہیں، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انہیں الفاظ کے چنائو میں نہ صرف احتیاط کرنی چاہئے بلکہ بعض تاریخی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے بھی اس امر کو مدِ نظر رکھنا چاہئے کہ محمود کی بات رشید سے منسوب کر دینے سے ابہام پیدا ہوتا ہے پیمرا کی جانب سے ان کے لائیو خطابات پر پابندی کا نوٹیفکیشن چیلنج کرنا ان کی جماعت کا قانونی حق ہے، انہیں عدالتوں سے ضرور رجوع کرنا چاہئے البتہ بارِ دیگران کی خدمت میں یہ عرض کیا جانا ازبس ضروری ہے کہ وہ تقریروں، بیانات اور انٹرویو میں ایسا تاثر نہ دیا کریں کہ ہم نہیں تو پھر کوئی نہیں سیاسی عمل جس قدر تحمل اور وقار کا متقاضی ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، ان کی جماعت کے سینئر رہنمائوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے قائد کی درست سمت رہنمائی کریں اور انہیں یہ باور کرائیں کہ کسی کے تعاون و مداخلت سے نہیں بلکہ عوام کے ووٹوں سے ملا اقتدار ہی جمہوریت اور نظام کے استحکام کی ضمانت ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ یہاں بات تو سب عوام کی کرتے ہیں لیکن دیکھتے کسی اور طرف ہیں یہی فساد کی جڑ ہے۔

مزید پڑھیں:  اس آسیب سے قوم کو نجات دلائیں