تانیثی فکر اور مساوی حقوق کی وکالت

اسلام آباد میں تانیثیت کے حوالے سے ایک مذاکرہ ہوا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی دانشور خواتین نے تانیثی فکر کے خد وخال اور تانیثیت کی بنیادی وجوہات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ عربی لفظ تانیث جو تانیثیت سے مشتق ہے اور انگریزی میں فیمینزم کا لفظ مستعمل ہے ، جس کے معنی تحریک ِ نسواں،حقوق ِ نسواں اور نسوانیت لیے جاتے ہیں۔ تانیثیت عورت کی اس ذہنی بیداری کا نام ہے جسے سمجھ کر اسے یہ احساس ہوا کہ وہ کوئی ایسی شے نہیں ہے جو محض تحفہ کی صورت دی جائے، قبیلے کی لڑائی میں بطور تاوان پیش کی جائے اور خاندانی رشتوں میں جائیداد کی طرح کسی کو منتقل کی جائے ۔ عورت یہ سمجھنے لگی ہے کہ وہ ایک مکمل انسانی وجود ہے جو معاشرتی ، اقتصادی ، سیاسی اور قومی سطح پر کچھ حقوق کی مالک ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ عورت کے ساتھ استحصالی سلوک اور فرسودہ ذہنی روئیے دراصل مردانہ بالادستی یا پدر شاہی نظام کی پیداوار تھے، جس کی جڑیں مختلف سماج ، مروجہ رسوم و روایات اور علاقوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔معاشرہ میں مرد کی حکمرانی ہمیشہ سے قائم نہ تھی بلکہ مادری نظام بھی رائج رہا جس میں عورت کی نمائندہ حیثیت تھی لیکن ذرائع پیداوار سے الگ ہونے پر عورت اپنے مقام و مرتبہ سے گرنا شروع ہو گئی ۔
اگر دیکھا جائے تو عورت پیدائشی طورپر ہمارے طے کردہ صفات کی حامل نہیں ہوتی بلکہ پدری معاشرہ میں وہ ذہنی اعتبار سے رفتہ رفتہ خود کو ان ہی صفات سے متصف سمجھنے لگتی ہے جو مردوں کی طرف سے ان کے ساتھ وابستہ کردی جاتی ہیں۔ یوںخواتین خود کو محکوم ، تابع،حقیر اور کمزورسمجھ کر جنسی ، نفسیاتی ، عقلی طبقاتی اور نسلی بنیاد پراستحصال کی شکارہورہی ہیں۔ فطری طور پرمرد اور عورت کے درمیان سوائے جسمانی ساخت کے وحدت،قوت اورمثبت اوصاف مساوی ہیںبلکہ دونوں نوع انسانی کاحصہ ہیں۔ تانیثی فکر ان تمام مروج نظام پر کاری ضرب لگا کر د ونوں جنس کے باہمی شعور کو اجاگر کر تی ہے۔ خواتین پر جبر کرنے کی نوعیت ہر زمانے اور معاشرے میں بدلتی رہی،جس میں لڑکیوں کا قتل، عصمت دری ، کم عمر ی کی شادی،طلاق،جسمانی وذہنی اذیتیں،خاوند سے بیوی پر لعنت ملامت و عتاب، سسرالی مخالفانہ تنازعات اوراستحصال شامل ہے۔
انہی انسانی خلاف ورزیوںکے خلاف جذبات ،احساسات اور حقوق کی بات کرنا اور اس ناروا سلوک،جنسی جبر ، منافقانہ اخلاقی اقدار کی آگہی پیدا کرنا تانیثیت کی اصل وجوہات ہیں تا کہ اجتماعی شعور بیدار ہو سکے۔ان تمام مسائل کی راست آگہی کے لیے مغرب میں گزشتہ کئی سالوں سے سیاسی، سماجی اور ادبی تحریکیں ابھرتی رہی ہیں جس کا مقصد معاشرے میں خواتین کا مقام متعین کرنا رہا۔ان پر ہورہے تمام مظالم کے ردعمل پر ہی تانیثیت کا تصور ظہور پذیر ہوا۔اس مذاکرے میں دانشور خواتین نے مودبانہ اور
ملتجیانہ انداز میں نسوانی مسائل اور ان کے حقوق کی طرف توجہ مبذول کرتے ہوئے ایک ایسے معاشرے کی تشکیل وقت کا اہم تقاضا سمجھا جو خواتین کے وجود کو تسلیم کرے، احترام کرے اور یہاں تک کہ ان کے کسی بھی انسانی پہلو کو نظر انداز نہ کرے۔ وہ سماج مہذب نہیں ہو سکتا جس میں خواتین کو دوسرا درجہ دیا جائے اور وہ مرد کے شانہ بہ شانہ نہ چل سکیں۔ جب کہ یہ نصف حصہ اپنی قدرتی صلاحیت اور تعلم و تربیت میں مرد سے
پیچھے نہیں ہے۔اس کے باوجود انہیں ماضی کی سفاک اورالم ناک روایات میں جکڑ کر رکھنا غیر مناسب ہے۔ایک ایسے سماج کی اشد ضرورت ہے جس میں وہ محفوظ ہو اور وہ عزت و آبرو حاصل ہو جس کا درس مذہب اسلام دیتا ہے۔ مغربی ادب میں تانیثیت کی کئی متضاد تھیوریز وجود میں آئی ہیں ۔ بنیادی مقاصدنسائی حقوق کی بحالی، سماجی منصب کا تعیّن اور اُن کی انفرادیت تسلیم کرنے کی کئی شکلیں سامنے آئیںجو تہذیبی ، اخلاقی،تعلیمی اوراقتصادی حقوق کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوئیں۔ تانیثی فکریں اردو ادب میں بھی پہلے سے شاعری اور نثر خاص کر افسانہ و ناول میں موجود تھیں۔ان تخلیقات میں تانیثی رجحانات موجود ہیںجو خواتین کی بازیافت، شناخت، سماجی و سیاسی مرتبے ، استحصال، محکومی و محرومی اور جبرو استبداد ان تمام معاملات کو وکیلوں کی طرح منطقی اور سائنسی دلائل سے تشریحات پیش کرتے ہیں۔تانیثی رجحان آہستہ آہستہ بین الاقوامی سطح تک پھیل گیا۔ یہ سچ ہے کہ مشرق سے زیادہ مغرب میں تانیثیت کا غلبہ ہے ۔خواتین تیزی سے تانیثی تبدیلی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ تانیثی شعور سے خواتین اپنی ذات کی شناخت اور تاریکی سے نکل کر دیومالائی قصوں سے الگ نئی پہچان بنا رہی ہیں بلکہ پرانی نسائیت کو نئی جہت سے روشناس کرا رہی ہیں۔ خواتین کے مساوی حقوق میں مردوں کی کامیابی چھپی ہے ۔ ان کی خوشحالی معاشرے کو نئی توانائی دے گی۔اسلام نے ہی خواتین کو ہر شعبے میں حریت ضمیر سے جینے کی آزادی دی۔ اس سے قبل کسی مذہب یاقانون نے عورت کویکساں مواقع، منصفانہ ماحول،عزت و تکریم اور اپنا مقام نہیں دیا۔ یہی سوچ تانیثی فلسفہ کی اب بنیادی فکر ہے۔ ہاں ایسے عناصر کی نشاندہی اور مخالفت ضروری ہے جو اس تانیثی فکر کی آڑ میں عورت کو چادر اور چار دیواری سے بے نیاز کر کے اپنے دیگر مقاصد پورا کرنا چاہتے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد