مشرقیات

دنیا دارالامتحان ہے،جس طرح ایمان سے محروم انسان کو ابتلا وآزمائش میں مبتلاکیا جاتا ہے، اسی طرح صاحبِ ایمان کے لیے بھی ابتلا وآزمائش مقدرہوتی ہے،اسلام کا تصوریہ ہے کہ بیماری اور شفاء اللہ کی طرف سے ہوتی ہے،فرمانبردار اورنافرماں کی کوئی تخصیص نہیں ہے،حضرات انبیائے کرام بھی بیمارہوئے ہیں،سیدالمرسلین اورامام الانبیاء بھی متعدد مرتبہ بیماری میں مبتلاہوئے ہیں، وفات کے موقع پرتقریباًچودہ دن بیمار رہے ،بیماری مومن کے لیے امتحان وآزمائش ہے، دنیا میں آزمائشیں بخشش اور مغفرت کے لیے آتی ہیں،حقیقت میں بیماری ایک نعمت ہے ، گناہوں کے لیے کفارہ اور رفع درجات کا سبب ہے،بیمارکواللہ اوربندوں سے معافی تلافی اورحقوق کی ادائیگی کے لیے ایک موقع دیاجاتاہے۔
حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامومن کی مثال نرم ونازک پودے کی سی ہے، جس کو ہوائیں ادھرسے ادھرجھکاتی رہتی ہیں،منافق کی مثال صنوبرکے درخت کی سی ہے، جس کی جڑیں زمین میں نہایت مضبوط ہوتی ہیں، ہوائیں اس کو اِدھراھرجھکانہیں سکتیں؛یہاں تک کہ اس کو یکبارگی اکھاڑ دیا جاتا ہے ۔(بخاری،کتاب المرضی،باب کفار المرض)
یعنی مومن کو غفلت سے بیدارکرنے اوراس کی اخروی ترقی کے لیے باربارآزمائشیں آتی رہتی ہیں،منافق اوربے ایمان کو مہلت دی جاتی ہے اوروہ غفلت کی زندگی میں مست ہوتاہے؛یہاں تک کہ اچانک اس کو موت آجاتی ہے،یااس پرکوئی عذاب نازل ہو جاتا ہے،جس کی وجہ سے اس کے لیے توبہ،استغفار اورگناہوں سے معافی تلافی کی کوئی صورت با قی نہیں رہتی۔
بیماری اورپریشانی گناہوں کے لیے کفارہ ہوتی ہے۔ حدیث قدسی میں وارد ہے ، حضرت انس فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ ارشادفرماتے ہیں”میری عزت اورجلال کی قسم!میں کسی شخص کو جس کی میں مغفرت کرنا چاہتاہوں، اس کودنیاسے نہیں نکالتا؛یہاں تک کہ بدنی بیماری اوررزق کی تنگی میں مبتلاکرکے اس کی گردن پر موجود گناہوں سے اس بندے کوپاک و صاف نہ کردوں۔ حضرت ابوسعیدخدری اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہمارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمان کوجو تھکان،بیماری،غم ورنج، کوئی تکلیف اورغم حتیٰ کہ کانٹابھی چبھتاہے،تواللہ تعالیٰ اس تکلیف کی وجہ سے اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سائب کے پاس تشریف لے گئے اورفرمایا:کیابات ہے کہ تم لمبی لمبی سانس لے رہی ہو؟انہوں نے کہا : بخارہے،اللہ اس کو نامبارک بنائے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخارکو برا بھلا نہ کہو،کیوں کہ بخارانسان کے گناہوں کو اس طرح دورکردیتاہے،جس طرح بھٹی لوہے کی گندگی کو دور کر دیتی ہے۔(مسلم،کتاب البروالصل،باب ثواب المومن:)
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی مسلمان کوبیماری،یاکوئی تکلیف پہنچتی ہے،تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس تکلیف اوربیماری کی وجہ سے اس مسلمان کے گناہوں کواس طرح تیزی سے گراتے ہیں،جس طرح درخت موسم خزاں میںاپنے سوکھے پتوں کو تیزی سے گراتا ہے ،یعنی مسلمان کم وقت میں اپنے تمام گناہوں سے پاک وصاف ہوجاتاہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:جب میں اپنے کسی مومن بندے کو آزمائش میں مبتلاکرتاہوں اوروہ بندہ آزمائش میں بھی میری حمدوثنابیان کرتاہے تقدیرپرراضی رہ کر ثواب کی امید رکھتا ہے،صبر کرتاہے،بے صبری اورشکوے شکایات سے احتراز کرتاہے تو وہ اپنی بیماری کے بسترسے گناہوں سے پاک وصاف ہوکر ) اس طرح اٹھے گا، جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو،اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں:میں نے اپنے بندے کو عمل کرنے سے روک دیاتھا اورآزمائش میں مبتلاکررکھاتھا؛لہٰذا اس کے لیے اسی طرح اجر لکھاکرو جس طرح تم اس کی صحت کے زمانے میں اجرلکھاکرتے تھے۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے