جنوبی ایشیاکا ”فلسطین”

بھارت کشمیر میں وقت کم اور مقابلہ سخت کے اصول پر عمل کرتے ہوئے پانچ اگست کے فیصلے کے زیادہ سے زیادہ مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں ہے ۔ان میں ایک اہم مقصد کشمیریوں کی زمینوں اور اور جائیدادوں پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرنا ہے ۔یہ کشمیر پر فلسطین ماڈل کا اطلاق ہے ۔جس میں مقامی لوگوں کی جائیدادوں کو بحق سرکار ضبط کرکے انہیں حکومت کے تصرف میں لانا ہے ۔پانچ اگست کے بعد بھارت نے اس مقصد میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔کشمیر میںآزادی پسند سیاسی جماعتوں ،شخصیات اور دینی تنظیموں اور سکالرز کی جائیدادیں ضبط کرنے کا سلسلہ عروج پر ہے ۔کچھ عرصہ پہلے اسیر آزادی پسند راہنما شبیر احمد شاہ کے مکان کو ضبط کیا گیا تھا ۔جس کے بعد یہ سلسلہ دراز ہوکر جماعت اسلامی تک پہنچ گیا ۔جماعت اسلامی کشمیر کے طول وعرض میں دفاتر اور تعلیمی اداروں کی صورت میں غیر منقولہ جائیدادوں کا وسیع سلسلہ رکھتی ہے ۔ان میں بہت سی زمینیں مخیر حضرات کی طرف سے عطیہ کی گئی ہیں کچھ عوام کے تعاون سے خریدی اور تعمیر کی گئی ہیں ۔جماعت اسلامی کے ساتھ جمعیت اہلحدیث ،جماعت اہل سنت ،اُمت اسلامی پارٹی ،میر واعظ عمر فاروق کی انجمن نصرت الاسلام اور کئی ٹرسٹ کی زمینیں جائیدادیں بھارتی حکومت کے نشانے پر ہیں ۔ دہشت گردی سے متعلق بھارت کا ادارہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کشمیر میں ایسی جائیدادوں کا کھوج لگاکر ان پر غیر قانونی یا مشکوک کا ٹیک لگادیتا ہے ۔جس کے بعد یہ جائیدادیں ضبط کی جارہی ہیں ۔جائیدادیں ہتھیانے کا ایک سلسلہ ان گھروں کو قبضے میں لینا ہے جن میں ان کے بقول عسکریت پسند پناہ لیتے ہیں ۔کسی بھی مکان کے عسکریت پسندوں کے استعمال میں لائے جانے کا الزام لگا کر گھر کو قبضے میں لیا جاسکتا ہے ۔اس وقت تک کروڑوں کی جائیدادوں کو ضبط کیا جا چکا ہے ۔سید علی گیلانی کے اہل خانہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ گھر تھوڑی مدت سے ان کے زیر استعمال رہا ہے اور یہ جماعت اسلامی کی ملکیت ہے۔جماعت اسلامی ،جمعیت اہلحدیث سمیت تمام جماعتوں کی قیادت اور دوسری تیسری صف کے کارکن جن میں دانشور اور سکالرز بھی شامل ہیں گرفتار ہیں ۔یہ جماعتیں اعلانیہ طور پر ممنوعہ قرارد ی جا چکی ہیں ۔ جماعت اسلامی نوے کی دہائی میں اعلانیہ طور پر عسکریت سے لاتعلق ہوچکی ہے ۔وہ اس بات کی تردید کر چکی ہے کہ حزب المجاہدین اس کا عسکری بازو ہے ۔اس کی جائیدادیں بر س دو برس کا قصہ نہیں پون صدی کی کہانی ہے ۔جماعت اسلامی کا کشمیر میں قیام برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی ہوا تھا ۔اسی وقت سے کشمیر میں دفاتر لائبریریوں سکولز اور رفاحی اداروں کاقیام عمل میں لایا جاتا رہا ۔اس کے باوجود جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتوں اور معروف سکالرز پر عتاب حقیقت میں بڑے مقاصد کی طرف پیش قدمی کا بہانہ ہے ۔وہ مقصد کشمیر میں زمینوں جائیدادوں پر زیادہ سے زیادہ کنٹرول ہے ۔ میرواعظ عمر فاروق بیک وقت دینی اور سیاسی شناخت کی حامل اور بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت ہیں ۔جنہیں کشمیر کے سیاسی کینوس پر ماڈریٹ بھی سمجھا جاتا رہا ہے ۔حریت کانفرنس میں جس دھڑے کی سربراہی ان کے پاس ہے اسے عالمی میڈیا بھی ماڈریٹ کہنا اور لکھتا چلا آرہا ہے ۔وہ مشرف من موہن پیس پروسیس کا حصہ بھی رہ چکے ہیں ۔ میرواعظ عمر فاروق پانچ اگست سے ایک دن پہلے سے نظر بند ہیں اور جامع مسجد میں ان کے خطبہ جمعہ پر پابندی ہے ۔میراعظ عمر فاروق بھی انجمن نصرت الاسلام نام سے ایک دینی تنظیم کے سربراہ ہیں جس کی جائیدادوں کا وسیع سلسلہ ہے ۔یوں لگتا ہے کہ بھارتی حکومت جماعت اسلامی کی جائیدادوں کو کنٹرول کرکے اس جانب ہاتھ بڑھانے کی ریہرسل کر رہی ہے ۔جماعت اسلامی کی اب تک ایک بلین روپے کی جائیدادیں ضبط کی جاچکی ہیں جبکہ ایک سو اٹھاسی جائیدادوں کے گرد سرخ نشان لگا دیا گیا ہے ۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اس وقت تک کسی بھی جائیداد کو ضبط نہیں کر سکتی جب تک کہ عدالت میں یہ بات ثابت نہ ہو کہ مذکورہ جائیداد غیر قانونی ذرائع سے بنائی گئی ہے یا غیر قانونی مقاصد کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔اب بھارت کشمیریوں کی جانوں کے ساتھ ان کے مال اور ذاتی املاک کا مالک بھی بن بیٹھا ہے ۔خدشہ یہ ہے کہ ضبط کی گئی یہ جائیدادیں غیر کشمیری سرمایہ داروں کو تجارتی اور رہائشی مقاصد کے لئے فروخت کی جائیں گی اور یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھتا چلا جائے گا ۔سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اسے کشمیریوں کو اجتماعی سزا دینے کے عمل سے تعبیر کیا ہے اور اسے پانچ اگست کے یک طرفہ فیصلے کے حقیقی مقاصد کی تکمیل قرار دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص کے دادا کا تعلق جماعت اسلامی سے نکل آئے گا تو کیا اس کی جائیداد بھی ضبط کی جائے گی ؟اس طرح تو ہر کسی کو پرانے تعلق اور الزام کی سزا دی جا سکے گی۔محبوبہ مفتی کا آبائی تعلق جنوبی کشمیر کے جس علاقے سے ہے وہاں مدتوں جماعت اسلامی کا زور رہا ہے اور وہاں سے بدترین حالات میں جماعت اسلامی انتخابی کامیابی حاصل کرتی رہی ہے ۔انہی لوگوں کی اولادوں نے محبوبہ مفتی کی نو تشکیل جماعت کو سیاسی اور انتخابی سپیس دینے میں اہم کردار ادا کیا ۔محبوبہ مفتی نے بھی ہر فورم پر حریت پسند کیمپ کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ اس لئے محبوبہ مفتی ان معاندانہ کارروائیوں کے خلاف بولنے میں خاصی جرات سے کام لیتی ہیں۔بھارتی دھارے میں سیاست کرنے والی جماعتوں میں انہی کی جماعت پی ڈی پی اس وقت سب سے زیادہ بھارت کے نشانے پر بھی ہے ۔بہرحال کشمیر میں اس وقت پوری طرح بھارت اپنے مقاصد کی تکمیل کر رہا ہے ۔اس کا ہاتھ روکنے والا کوئی بھی نہیں ۔کشمیر کا جو میڈیا حق گوئی اور جرأ ت اظہار میں اپنی مثال آپ تھا بدترین سینسر اور پابندیوں کا شکار ہے ۔ کئی معروف صحافی جیلوں میں ڈال دئیے گئے کئی ایک کے قلم کی روشنائی چھین لی گئی ہے ۔تحقیق اور شعور وابلاغ کو طاقت کی بند مٹھی میں مقید اور محصور کر لیا گیا ہے ۔لوگ سرگوشیوں اور اشاروں میں بات کرنے سے گریزاں ہیں کہ مبادا ان پر غداری کا مقدمہ قائم ہوجائے ۔اسی لئے حالات کی اصلی اور سچی تصویر بھی سامنے نہیں آرہی ۔خوف اور دہشت کی ایک ایسی فضا کشمیر میں ہے جس میں آزادی سے سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے ۔عسکریت کو کچلنے او ردبانے اور اس کی جڑیں کھودنے کے نام پر کشمیر ایک ساونڈپرووف قید خانے کا روپ دھا ر چکا ہے۔جہاں پورے معاشرے کا گلہ گھونٹ دیا گیا ہے اور آوازوں کو باہر جانے سے بھی روک دیا گیا ہے اب ہر مقتول اور معتوب کی آخری چیخ بھی اس مقتل کی دیواروں سے سر ٹکرا کر گمنامی او ر سکوت کی قبر میں اُتر جاتی ہے۔

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟