ریڈیو پاکستان کا مالی بحران

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے اجلاس میں ریڈیو پاکستان میں مالی بحران کا انکشاف کوئی نئی بات نہیں ‘ اخباری اطلاعات کے مطابق ڈی جی ریڈیو کا کہنا ہے کہ آئندہ ماہ پنشنرز کو دینے کے لئے کوئی پیسہ نہیں اگر حکومت نے کوئی مدد نہیں کی تو مالی بحران شدید ہوجائے گا’ کمیٹی نے ریڈیو اور ٹی وی کے مالیاتی امور پر ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی ‘ سینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت کمیٹی کے اجلاس میں ریڈیوپاکستان کے مالی بحران پر غور کیا گیا’ وفاقی سیکرٹری اطلاعات نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت اس وقت ریڈیو پاکستان کوساڑھے چار ارب روپے دیتی ہے ‘جبکہ ریڈیو کی سالانہ ضرورت ساڑھے چھ ارب روپے ہے’ ریڈیو کو اس خلاء کو خود پورا کرنا پڑتا ہے ‘ ڈی جی ریڈیو پاکستان نے کہا کہ ریڈیو کی 27 اراضیات نجی شعبے کو دینے کی تجویز زیر غور ہے جس سے 15ارب روپے حاصل ہوں گے ‘ اس موقع پر کمیٹی کے چیئرمین فیصل جاوید نے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے اجلاس میں پیش نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور ان کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ مریم اورنگزیب کی پوری توجہ غیر ملکی دوروں پر ہے مگر ان کے پاس اپنی وزارت کے لئے وقت نہیں ‘ شہزاد احمد نے کہا تھا
رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا
ریڈیو پاکستان اس ملک کے اثاثوں میں ایک ایسا اثاثہ ہے جس کو ایک عرصے سے نہ جانے کس گناہ کی پاداش میں ماضی کی تقریباً ہر حکومت سزا دیتی رہی ہے ‘ دنیا بھر میں ریوڈیو کی اہمیت نہ صرف روزاول سے قائم ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے ‘ کیونکہ نشریاتی ادارے کی حیثیت سے ریڈیو کسی بھی قوم کے نظریاتی محاذ پر صف اول میں رہ کر تحفظ کا فریضہ انجام دیتا ہے ‘ پاکستان ہی کو لے لیں تو ملک پرجب بھی کوئی آزمائش آئی تو ایک جانب سکیورٹی ادارے آگے آئے اور دوسری جانب ریڈیو پاکستان نے فکری محاذ کو سنبھال کر آزمائش کی گھڑیوں میں بھر پور کردار ادا کرتے ہوئے قوم کی فکری رہنمائی کو ممکن بنایا’ پاک بھارت جنگوں کے دوران ریڈیوپاکستان کی خدمات ہمیشہ سنہری حروف ے لکھی جائیں گی ‘جہاں سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہماری بہادر اور جری افواج نے لازوال قربانیاں دے کر ملک کی حفاظت کی’ دیگر سکیورٹی اداروں نے اندرون ملک نظم و نسق کو برقرار رکھنے میں اہم کردارادا کیا ‘ ادھر ریڈیو پاکستان نے فکری محاذ پرلازوال کارنامے رقم کئے اور عوام کے اندر حوصلہ اور ولولہ پیدا کرنے کا فریضہ خوش اسلوبی سے انجام دیا ‘ بدقسمتی سے مگر ٹی وی نشریات آنے کے بعد سرکاری حلقوں میںریڈیو کی اہمیت کو کم کرنے کی شعوری کوششیں اختیار کی گئیں ‘حالانکہ دنیا بھرمیں آج بھی ان ممالک کے ریڈیو کا کردار روز بروز بڑھ رہا ہے ‘ بی بی سی جو دنیا بھر کے نشریاتی اداروں کا سرخیل ہے ‘ اسے آج بھی وہی اہمیت حاصل ہے جو روز اول سے اسے حاصل ہے ‘ حالانکہ بی بی سی ٹیلی ویژن کے بھی کئی چینلز ساتھ ہی کام کر رہے ہیں مگرریڈیو کو جومقام ابتداء سے حاصل ہے اس میں کوئی کمی نہیں آنے دی گئی ‘ یہی حال وائس آف امریکہ کا ہے جس نے دنیا بھر کے لئے ان ممالک کی زبانوں میں نشریات میں نہ صرف اضافہ کیا اور لاتعداد نئی زبانوں کے پروگرام شرع کئے بلکہ اسی قسم کے اقدامات دیگر ممالک نے بھی نشریات کی ترقی کے حوالے سے اٹھائے ‘ پاکستان میں موجودہ حالات کے تحت ‘ جب توانائی کے بحران سے ہم دو چار ہیں اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ مختلف اوقات میں ہونے کی وجہ سے ٹی وی نشریات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں ‘ ایسے میں صرف ریڈیو ہی ایک ایسا ادارہ رہگیا ہے جواپنے سننے والوں کو 24 گھنٹے نشریات پہنچا رہا ہے اور فلک بوس پہاڑوں کی اونچائی پر بیٹھ کر بھی لوگ اپنے ٹرانزسٹر کے ذریعے ان نشریات سے مستفید ہو کر دنیا بھر کے حالات سے خود کو باخبر رکھ سکتے ہیں ‘مگر گزشتہ ادوار میں جوبھی حکومت آئی اس نے ریڈیو پاکستان کو برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اب جیسا کہ خبر سے ظاہر ہے ریڈیو پاکستان کی انتہائی قیمتی اراضی کو اونے پونے ٹھکانے لگانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس سے ڈی جی کے بقول 15 ارب روپے حاصل ہوں گے ‘ اور ظاہر ہے یہ رقم ختم ہو جائے گی تو مالی بحران اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ سر اٹھائے گا اور اس کے بعد کیا ہو گا؟اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ‘ بقول محسن احسان
تنہا کھڑا ہوں میں بھی سر کر بلائے عصر
اور سوچتا ہوں میرے طرفدار کیا ہوئے؟
ریڈیو پاکستان اگرچہ محدود پیمانے پر کمرشل اشتہارات سے آمدن حاصل ضرورکرتا ہے تاہم بیورو کریسی کے اندر ریڈیو کے بارے میں منفی جذبات اور بغض و عناد رھنے والے گنتی کے مختصر مگر”طاقتور” عناصر پی ٹی وی کی طرح اضافی(اضافی ؟) اخراجات خود سے پورا کرنے کی غلط او رمنفی سوچ رکھتے ہیں ان سے ایک سادہ سا سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح ملک کے کئی ایک دیگر ادارے اپنی ذمہ داریاں صرف سرکاری وسائل سے پورا کرتے ہیں اور ان سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ اپنے اخراجات کے لئے کمرشل بنیادوں پر”کرائے پر دستیاب” کے
بورڈ اپنے ماتھوںپر سجا دیں ‘ اسی طرح ریڈیو بنیادی طور پر ملک کے نظریاتی سرحدوں کی حفاظت شروع دن سے کر رہا ہے تو اس سے اتنی توقعات کیسے باندھی جا سکتی ہیں؟پی ٹی وی کو سرکار جہاں اخراجات کے لئے معقول گرانٹ فراہم کرتی ہے وہاں اسے بجلی کے ہر بل پر صارفین بجلی سے 35 روپے ٹی وی فیس کے وصول کرکے ہرماہ اربوں روپے کی امدادمہیا کر دی جاتی ہے حالانکہ ابتداء میں یہ تجویز ریڈیو پاکستان کی جانب سے دی گئی تھی لیکن ”سرپرستوں” نے ریڈیو کی بجائے پی ٹی وی کوفائدہ پہنچا دیا تھا ‘ اب ایک بار پھر یہ تجویز گردش کر رہی ہے کہ پی ٹی وی کی طرح ریڈیو پاکستان کے لئے بھی بجلی بلوں میں صرف 15 روپے وصول کئے جائیں تو اس سے پنشنرز کے مسائل حل ہوجائیں گے ‘ شنید ہے کہ جس طرح ڈی جی نے کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا ہے کہ پنشنرز کے لئے مزید کوئی رقم ادارے کے پاس نہیں ہے اس ضمن میں بعض اطلاعات یہ آرہی ہیں کہ فنڈز کی یہ عدم فراہمی جون کے مہینے تک کے لئے ہے جس کا مطلب ہے کہ پنشنرز کو اگلے پانچ ماہ تک کسی قسم کی ادائیگی ہونے کا امکان نہیں ہے گویا انہیں بے موت مارنے کی پوری تیاری کر لی گئی ہے ‘ سینٹ کمیٹی کے اجلاس میں اٹھائے جانے والے سوالات بڑے اہم ہیں اور وفاقی وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب کواس صورتحال پرتوجہ دینی چاہئے ‘ کیونکہ یہ ایک آئینی ادارے کے سابقہ ملازمین کے ساتھ صرف زیادتی ہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی بھی نفی ہے جس نے بہت پہلے تمام پنشنرز کو ان کی پنشن کی رقم ہر ماہ کی پہلی تاریخ سے پہلے پہلے ان کے قریبی بنکوں میں ارسال کرنے کا کہا ہے ۔ بقول احمد فراز
کاش تو بھی کبھی آجائے مسیحائی کو
لوگ آتے ہیں بہت دل کو دکھانے کے لئے

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز