معاشی اصلاحات، آغاز کہاں سے کریں؟

عالمی کساد بازاری نے دنیا کو معاشی بحران میں جکڑ رکھا ہے، معاشی بحران کا یہ سلسلہ کورونا وبا سے شروع ہوا تھا، توقع کی جا رہی تھی کہ کورونا ختم ہوتے ہی معاشی بحران بھی ختم ہو جائے مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ بڑی معیشتوں کو کم خطرات لاحق ہیں، تاہم پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے، پاکستان کی معاشی صورتحال کا اندازہ لگانے کیلئے یہی کافی ہے کہ ہماری کل برآمدات 30 ارب ڈالر سالانہ ہے، دوسری طرف صرف ایک شعبہ پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں ہم سالانہ27 ارب ڈالر خرچ کر دیتے ہیں، بجلی مہنگی ہونے کی وجہ بھی یہ ہے کہ ہم تیل سے بجلی پیدا کرتے ہیں، مطلب یہ کہ ہمارے تاجروں نے سال بھر جو کمایا وہ ہم نے پیٹرولیم کی مد میں جھونک دیا، باقی ضروریات کہاں سے پوری ہوں گی؟ حکومت کو جب کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ہے تو دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض کے حصول کیلئے رجوع کرتی ہے۔ دوست ممالک اور مالیاتی ادارے بھی کتنا قرض دیں؟ اب سوال اٹھنے شروع ہو گئے ہیں کہ پہلے اپنے گھر کو درست کریں، گھر درست کرنے سے مراد معاشی اصلاحات ہیں، برادر اسلامی ملک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ دنیا جن معاشی اصلاحات کا ہم سے مطالبہ کر رہی ہے کیا حکومت اس طرف توجہ دے گی؟ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان میں جس قدر فنڈز اکٹھے ہو سکتے ہیں اس حساب سے فنڈز اکٹھے نہیں ہو رہے ہیں، اسی طرح دیگر شعبوں میں جو بچت کی جا سکتی ہے وہ نہیں کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف حکام سے مذاکرات کے دوران یہ عقدہ بھی کھلا کہ وزارت خزانہ کے حکام پاکستان کی معیشت کے حوالے سے کئی اہم امور سے لاعلم تھے جبکہ عالمی مالیاتی ادارے کے حکام ان امور سے بخوبی واقف تھے، عالمی مالیاتی ادارے اور دوست ممالک کی اکثریت کا خیال ہے کہ پاکستان میں مالی بحران کی بجائے بدانتظامی ہے، جامع معاشی پالیسی کا فقدان ہے ہر حکومت ازسرنو کام کا آغاز کرتی ہے، دراصل یہی معاشی اصلاحات ہیں جو عالمی مالیاتی ادارہ یا دوست ممالک ہم سے تقاضا کر رہے ہیں اس حوالے سے دیکھا جائے تو یہ ادارے ہمارے خیر خواہ ہیں۔ معاشی اصلاحات میں موجودہ حکومت کی ہچکچاہٹ ضرور ہے کیونکہ اسے سیاسی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ سابقہ حکومتیں سیاسی نقصان
سے بچنے کیلئے معاشی اصلاحات سے گریز کرتی رہی ہیں۔ اب بھی اصلاحات کا عمل مشکل مرحلہ ہے، کیونکہ اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ اصلاحات مہنگائی کا باعث بنیں گی جس سے حکومت اپنی مقبولیت اور ووٹ کھونے کے خوف کا شکار ہے۔ موجودہ حالات میں کیا پی ٹی آئی اس حکومت کے ساتھ بیٹھ کر اس بات کو یقینی بنائے گی جس بنا پر معاشی اصلاحات کا راستہ ہموار ہو؟ پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کا معاشی اصلاحات کیلئے ایک جگہ پر جمع ہونا آسان نہیں ہو گا۔ غالب امکان یہ ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے حکومت آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے گی تاکہ دوست ممالک سے قرض لینے کے قابل ہو جائے۔ اس طرح بڑا بحران کچھ وقت کے لیے ٹل جائے گا جب تک کہ یہ اگلی حکومت کا مسئلہ نہ بن جائے۔ اس وقتی بندوبست کی وجہ سے معاشی مسائل مزید گمبھیر ہوتے جائیں گے اور چیلنجز زیادہ مشکل ہوں گے، مسئلہ موجودہ حکومت تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اصل پریشانی آنے والی حکومت کیلئے ہو گی جسے شدید ترین مالی بحران کا سامنا ہو گا۔
پاکستان میں کسی بھی شعبے میں اصلاحات کی تاریخ لے لیں سارا معاملہ واضح ہو جاتا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ہمارا ٹیکس کا نظام پچھلی چار دہائیوں یا اس سے زیادہ عرصے میں اصلاحات کا تقاضا کیا جاتا رہا ہے مگر ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں ہو سکا ہے، دنیا بھر میں تاجر اور صنعت کاروں سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے مگر یہاں 22کروڑ سے زائد آبادی میں بمشکل تیس لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں جن میں سے صنعتکاروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، ٹیکس دینے والا زیادہ تر تنخواہ دار طبقہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے ترقی کی منازل طے کی ہیں، صنعتکاروں سے لیا جانے والا ٹیکس ریاستی نظام کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس کے برعکس جو ٹیکس تنخواہ دار طبقہ سے حاصل کیا جاتا ہے وہ درحقیقت حکومت کی طرف سے ادا کردہ رقم ہوتی ہے اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ حکومت ایک ملازم کو ماہانہ ایک لاکھ روپے تنخواہ دیتی ہے پھر ٹیکس کی مد میں پانچ فیصد وصول کرتی ہے تو حکومت کو کچھ حاصل وصول نہیں ہوا۔
حقیقت یہ ہے کہ بیشتر شعبوں میں بنیادی اصلاحات نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں اصلاح نہ کرنی پڑے۔ لیکن اصلاحات کے نفاذ سے پہلے اس کے لیے تفصیلی کام کی ضرورت ہے۔ اصلاحات کا معاملہ مرحلہ وار، نہایت صبر آزما اور کٹھن ہو گا جس کیلئے سیاسی استحکام اور طویل عرصہ تک برداشت سے کام لینا ہو گا، جن معاشی حالات سے آج ہم دوچار ہیں اس سے بدتر صورتحال کا سامنا ہمارے پڑوسی ملک بھارت کو 1980 کی دہائی میں تھا یہ سلسلہ 1990 تک جاری رہا، پھر بھارت نے اصلاحات کا آغاز کیا۔ آج بھارتی روپیہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں تین گنا پر پہچ چکا ہے حالانکہ آج سے محض بیس برس قبل پاکسانی روپیہ کی قدر زیادہ تھی۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ہم نے اصلاحات کا آغاز تک نہیں کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے قسط کے اجرا کیلئے ایک شرط یہ بھی رکھی ہے کہ سرکاری افسران کے اثاثے ظاہر کئے جائیں، اشرافیہ کو آئی ایم ایف کی یہ شرط ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان کا ہر ادارہ خسارے میں ہے مگر وہاں کام کرنے والے اعلیٰ افسران کے اثاثوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جب ادارہ خسارے میں ہے تو وہاں کام کرنے والے خوشحال کیسے ہو گئے؟ یہی اصلاحات ہیں جو ہم نہیں کر پائے ہیں۔ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے یومیہ پچاس لاکھ ڈالر افغانستان اسمگل ہو رہے ہیں، پاک افغان تجارت اور ہر طرح کی آمد و رفت کو جب دستاویزی شکل دی جا چکی ہے، ویزہ کے بغیر آنا جانا آسان نہیں رہا ہے، پاک افغان سرحد پر باڑ لگنے کے بعد چور دروازوں سے افغانستان جانا آنا مشکل ہو گیا ہے تو پھر یومیہ پچاس لاکھ ڈالر کی خطیر رقم افغانستان کیسے اسمگل ہو رہی ہے، کیا امیگریشن عملے کی ملی بھگت کے بغیر اسمگلنگ ممکن ہے؟ معاشی اصلاحات کئے بغیر معاشی بحران پر قابو پانا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے مترادف ہے ہمیں اصلاحات کرنی ہوں گی مگر سوال یہ ہے کہ آغاز کہاں سے ہو؟

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز