مشرقیات

علامہ صاحب نے کہاتھا ”آئین جواںمرداں حق گوئی و بے باکی”۔اس شعر کے مصرعہ دوم میںیہ بھی فرمایا تھا” اللہ کے شیروںکوا تی نہیں روباہی”۔جہاں تک حق گوئی کی بات ہے تو ہم لوگ ایک دوسرے کے منہ پر سچ بولتے ہوئے بھی نہیں کتراتے البتہ اسی سچ کا سامنا خودکرنا پڑے توپھر کنی کتراجاتے ہیں۔ہمارے ایک جاننے والے کسی دوست کو ملنے گئے توان گھر سے جواب ملا ”صاحب خانہ نہیں ہیں”جواب لانے والے صاحب زادے سے استفسار کیا ”بیٹا ابو کہاں ہیں ؟بچے من کے سچے،بولا ،اپنے کمرے میں بیٹھے ہیں اورکہتے ہیں گھر پر نہیںہیں؟ایک اور موقع پر یہ سچ دوست کے منہ پر دے مارا۔وہ شرمندہ کم اور ناراض زیادہ ہوئے ۔بہرحال دن گزر ے اور بات آئی گئی ،اب ہمارے ان جاننے والے سے کسی عزیز کو کام پڑ گیا تھا مگر مسلہ یہ تھا کہ وہ یہ کام کرنے سے کترا رہے تھے جب بھی وہ ملنے آتے یہ ادھر ادھر نکل جاتے ،گھر پر بھی ہوتے تو کہلا بھیجتے گھر پر نہیں ہیں۔تب بھی انہیں سمجھ نہیں آئی کہ دوسروں کو نصیحت بلکہ جلی کٹی سنانے کے بعد خود میاں فضیحت کیوں بنے بیٹھے ہیں۔یہ تو ہو گئی عام سے گل کتھ ،اب آئیں اپنے قومی مزاج یا سیاست کی طرف۔آپ گواہ ہیں کہ ہمارے سیاسی رہنما حق گوئی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ایک بار انہیں اقتدار ہاتھ آجائے توپھر یہ حق گوئی کا کوئی موقع آنے ہی نہیں دیتے ۔آج کل تو مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے جو بے باکانہ لہجہ اپنایاگیا ہے اس کے باعث بات مقدموںاور گرفتاریوں تک جا پہنچی ہے ،اپنے شیخ صاحب حق گوئی نہیں بے باکی کی وجہ سے دھرے گئے ہیں ۔بالکل ان کی طرح دیگر سیاسی رہنما بھی ایک دوسرے کے لتے لینے کے لیے جس طرح” سرباز ارمی رقصم” کا مظاہرہ کررہے ہیںاسے دیکھتے ہوئے صاف لگتا ہے کہ بے باکی کے یہ مظاہرے انہیں گلے پڑنے والے ہیں۔اب آئیں علامہ صاحب کے اسی شعر کے دوسرے مصرعہ کی طرف۔حق گوئی اور بے باکی کا مظاہرہ کرنے والوںکو جب اپنی پنجاب پولیس اٹھا لیتی ہے تو وہ آگے سے کاغذی شیر ثابت ہوتے ہیں ۔ایک سے ایک مکر اور چالاکی دکھاتے ہوئے پھر منت سماجت حتیٰ کہ رونے دھونے پر اتر آتے ہیں ۔ایسے میں کوئی کیسے یقین کرے کہ ہمارے یہ حق گو اور بے باک رہنما اللہ کے وہ شیر ہیں جنہیں روباہی نہیں آتی ،بجائے اس کے حق گوئی اور بے باکی کے بعد ان کا رونا دھونا دیکھ کر بندے کو لومڑ ی یا د آجاتی ہے ۔علامہ صاحب کے شعر پر جزوی عمل کرنے والے بہرحا ل اس شعر پر پورا نہیں اترتے ۔ اب تو جیل بھرو تحریک کا نام سن کر ہی بہت سے شیر ڈھیر ہوگئے ہیں جب جیل بھرنے کا مرحلہ آئے گا تو ہم ان کاغذی شیروںکو چکی کی مشقت میں پڑنے کی بجائے ادھر ادھر پتلی گلی تلاش کرتے دیکھیں گے ہوسکتا ہے کہ کوئی پوچھنے گھر پر بھی آئے تو بچوںکے ذریعے کہلا بھیجیں ” اباکہتے ہیں میں گھر پر نہیں ہوں”۔

مزید پڑھیں:  کالی حوریں