یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کو

مخالفین تو نون میں سے شین نکالنے کی حسرت لئے ”پس دیوار زنداں”کی سیر کو چلے گئے، لیکن خود نون کے اندر ٹوٹ پھوٹ کی ”ہلکی پھلکی موسیقی” ابھر رہی ہے، پہلے مفتاح اسماعیل نے تان اٹھائی اور وزارت خزانہ سے نکالے جانے پر احتجاج کرتے ہوئے اپنے قائد کے بیانئے”مجھے کیوں نکالا؟”کی یاد تازہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا، تب سے اب تک وہ مسلسل پارٹی رہنمائوں کو زچ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اس دوران اڑتی اڑتی خبریں گردش کرنے لگیں کہ شاہد خاقان عباسی بھی پر تولنے لگے ہیں اور جلد ہی پارٹی کو خیر باد کہہ کر مفتاح اسماعیل اور کچھ دوسرے سیاسی رہنائوں کے ساتھ مل کرنئی پارٹی کی بنیاد رکھیں گے۔ تاہم ان اطلاعات پر بغلیں بجاتے ہوئے خوشی سے پھولے نہ سمانے والوں کی ساری نہیں تو آدھی امیدوں پرپانی پھیرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے پارٹی چھوڑنے اور نئی سیاسی جماعت کے قیام کی خبروں کو افواہوں سے تشبیہ دے کر انہیں رد کر دیا، البتہ انہوں نے پارٹی کے عہدے سے استعفیٰ ضرور دیا جس پر دور کی کوڑی لاتے ہوئے سیاسی حلقوں اور تجزیہ کاروں نے اس صورتحال کو ماضی میں چودھری نثار علی خان کے اس بیانئے سے ملانے کی کوششیں شروع کر دیں کہ جو دھری صاحب کے بھی ماضی میں پارٹی سے اختلافات اسی لیے پیدا ہوتے تھے کہ پارٹی قیادت محترمہ مریم نواز کو آگے لا کر پارٹی پر مسلط کرنا چاہتی ہے اور انہوں نے مریم نواز کو بیٹی کا درجہ دینے سے تو انکار نہیں کیا تاہم بطور قائد ان کی سربراہی میں کام کرنے سے انکار کیا تھا ۔ تب سے چودھری صاحب اور پارٹی کی راہیںجدا ہو گئی تھیں۔ انہوں نے دبی زبان میں سیاسی موروثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا لیکن اب انہیںاوریاد دلایا جا رہا ہے کہ کل وہ سیاسی موروثیت کے خلاف تھے تو آج انہوں نے اپنے حلقے میں اپنے بر خوردار تیمور علی خان کو کس سیاسی اخلاقیات کے تحت قومی اسمبلی کیلئے الیکشن میں اتار کر ان سے کاغذات بطور
قائد ان کے نامزدگی جمع کروائے اور وہ کونسی سیاسی جماعت ہے جس نے موروثیت کے کھیل کا حصہ بننے کی راہ نہ اپناتی ہے ۔ موروثیت صرف اولاد یا قریبی رشتہ داروں کو ہی ایوانوں کا حصہ بنانے کا نام نہیں ہے۔ دور پار کے رشتہ داروں کو پارلیمنٹ میں پہنچانا بھی ایک طرح اسی کھیل کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے یعنی بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں کے ساتھ کی ساتھ نزدیکی اور رشتے کی خواتین کو بھی جس طرح اسمبلیوں میں پہنچا کر بھر پور استفادہ کیا گیا، انہیں کس کھاتے میں رکھا جائے گاخیر یہ تو چند جملہ ہائے معترضہ تھے، بات ہو رہی تھی نون میں سے شین نکالنے کی اور شہباز شریف کے شین کے بعد شاہد خاقان عباسی کے شین کے ا خراج میں ناکامی اپنی جگہ لیکن اب نون لیگ کے سامنے ایک اہم اور نازک مسئلہ شین نہیں بلکہ سین(س) اور کاآگیا ہے یعنی بقول شاعر مقطع میں آن پڑی ہے سخن گسترانہ بات ‘ کہ لیگ کے ایک دیرینہ ‘ اہم اورمیاں نواز شریف کے انتہائی قریبی اور وفادار ساتھی سردار مہتاب احمد خان عباسی کو شکایات لاحق ہوگئی ہیں اورانہوں نے گزشتہ روز ایک پر یس کا نفرنس میں پارٹی قیادت کے سامنے شکایات کا پٹارہ کچھ اس انداز سے کھولا ہے کہ اگر پارٹی رہنمائوں نے ان کی بات پر توجہ نہیں دی تو کم از کم ضلع ہزارہ سے پارٹی کا جنازہ نکلنے کو خارج از امید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جمال احسانی نے کہا تھا
یہ کس مقام یہ سوجھی تجھے بچھڑنے کو
کہ اب تو جاکے نہیں دن سنورنے والے ہیں
سردار مہتاب احمد خان عباسی نے بطور وزیر اعلیٰ اور گورنر خیبر پختونخوا صوبے کی بہت خدمت کی ہے اور میاں نواز شریف کے جتنے قریب رہے ہیں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے، انہوں نے پارٹی کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں، بڑی آزمائشوں سے گزرے ہیں، وزارت اعلیٰ کے منصب سے انہیں جنرل مشرف نے بے دخل کر کے بعض اطلاعات کے مطابق انہیں 6×6کی تنگ کال کوٹھڑی میں ڈال کر ہمراہ کمال ان کے میاں نواز شریف کے ساتھ وفاداریاں ختم کرنے کی بہت کوششیں کیں لیکن وہ اپنے مقصد میں بری طرح ناکام اور سردار مہتاب اس کڑے امتحان میں سرخرو ہوئے۔ وہ ملکی سیاسی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اور پارٹی قیادت کو ہمیشہ درست مشورے دیتے ہیں۔ ان سے کچھ ذاتی ملاقاتیں بھی رہی ہیں۔
میاں صاحب دوبارہ برسر اقتدار آئے تو ان کو صوبے کا گورنر بنایا گیا۔ یہاں ایک بات کا انکشاف کرنا بنتا ہے بہرحال اب اگر سردار مہتاب احمد خان عباسی نے پارٹی قیادت کو صوبے میں نون لیگ کے بعض کرداروں کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے تو یقیناً پارٹی قیادت کو اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر لینا چاہئے۔ اس ضمن میں سردار مہتاب نے اپنے خدشات کا تذکرہ ایک ایسے موقع پر کیا جب پارٹی کی سینئر نائب صدر محترمہ مریم نواز ضلع ہزارہ کے اہم دورے پر تھیں۔ سیاست میں وقت کا تعین بڑی اہمیت رکھتا ہے، سردار مہتاب احمد خان نے ایسے موقع پر پارٹی سے راہیں جدا کرنے کی جو چھنائو دی ہے اس کی بہت اہمیت ہے اور پارٹی قیادت کو اسے سرسری انداز میں نہیں لینا چاہئے۔ اگرچہ شاہد خاقان عباسی نے پارٹی سے علیحدگی کو سرے سے مسترد کرتے ہوئے صرف پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیا ہے اور میاں نواز شریف کے ساتھ اپنے تعلق کو قائم رکھنے کی بات کی ہے جبکہ سردار مہتاب احمد خان عباسی نے پارٹی پر واضح کر دیا ہے کہ اگر پارٹی ان کے خدشات کو سنجیدگی سے نہیں لینا چاہتی تو انہیں بتا دیا جائے کہ وہ بھی اپنی راہیں تبدیل کر لیں۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ شاہد خاقان عباسی کے حوالے سے سیاسی سطح پر اٹھنے والے سوالات پر محترمہ مریم نواز نے مثبت انداز میں میڈیا سوالوں کے جوابات میں جس طرح واضح کیا تھا کہ شاہد خاقان عباسی کے ساتھ رابطہ کرکے ان کے خدشات دور کرنے کی جائے گی تو اسی طرح سردار جناب احمد خان کے ساتھ بھی نہ صرف مریم نواز صاحبہ بلکہ بہتر ہو گا کہ میاں صاحب فوری رابطہ کرکے ان کی شکایات کا ازالہ کریں کیونکہ جس طرح شاہد خاقان عباسی نے پارٹی کے اوپر افتاد پڑنے والے دنوں میں نیب کی (نا جائز) حراست میں بے پناہ قربانیاں دین اور ثابت قدم رہے اسی طرح سردار مہتاب احمد خان کی قربانیاں بھی پارٹی کا اثاثہ ہیں۔ اوراگر انہوں نے کچھ وجوہات کی بنا پر پارٹی کو خیر باد کہہ دیا تو اس سے خیبر پختو نخوا حصوصاً ضلع ہزارہ کی سیاست میں ، جہاں نون لیگ کی بے پناہ اہمیت اور فالو شپ ہے۔ پارٹی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ویسے میاں برادران کا ٹریک ریکارڈ اس حوالے سے کچھ زیادہ خوش کن نہیں ہے یعنی جب ان کی پارٹی سے کوئی بوجوہ علیحدگی اختیار کر لیتا ہے تو وہ پھر اس سے لا تعلقی اختیار کرنے میں دیر نہیں کرتے اور بھول جاتے ہیں کہ مرزا غالب کی طرح یہ نہیں کہتے کہ
تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا
ایسے نہ ہو کہ سردار مہتاب احمد خان عباسی ایسے دیرینہ اور مخلص ساتھی کے جدا ہونے کے بعد میاں صاحبان بقول شہزاد احمد یہ نہ کہتے پھریں کہ
رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
وہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آگئی
احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا

مزید پڑھیں:  عدلیہ ، عوام اور دستورِ مظلوم