شکریہ آئی ایم ایف ؟

آئی ایم ایف کی پاکستان میں اب تک کی شبیہ ایک ڈریکولا جیسی ہے ایک ایسی خونیں چڑیل جو ٹیکسوں اور مہنگائی کے ذریعے پاکستانیوں کی شہ رگ کا خون پی جاتی ہے۔یہ الگ بات کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو کبھی دعوت دے کر اپنے دربار میں نہیں بلایا بلکہ خود پاکستانی حکمران اپنی عیاشیوں کی خاطر ایک بار آئی ایم ایف کے طواف کو گئے پھر یہ پہلا چکر ہی ساری عمر کا روگ بن گیا ۔بائیس بار پاکستانی حکمران آئی ایم ایف کے در کا طواف کرنے گئے اور ہر بار قرض کی ایک ایسی قسط لے کر واپس آئے جس کا اطلاق اور بوجھ ہر پیدا ہونے والے بچے پر بھی پڑتا تھا گویاکہ ایک بچہ ماں کی کوکھ سے جنم لیتے ہی مقروض قرار پاتا تھا ۔آئی ایم ایف کے اس خوفناک امیج میں اس عالمی ادارے کی ایک اچھی تصویر پہلی بار ایک خبر سے بنتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہے ۔اس تصویر کا تعلق اس خبر سے ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو قرض کی ایک نئی قسط کے لئے کچھ اہم شرائط کی اطلاعات آرہی ہیں ۔جن میں سب سے اہم سرکاری ملازمین کے اثاثوں کو پبلک کرنااور احتساب کا نظام قائم کرنا بھی ہے ۔اگر آئی ایم ایف کی طرف سے ایسی کوئی شرط عائد کی جارہی ہے تو یہ قطعی بے جواز نہیں ۔اس ملک میں سارے عذابوں کی وجہ احتساب کا نظام نہ ہونا اور کرپشن پر کوئی قدغن نہ ہونا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے بائیس بار قرض دیتے ہوئے پاکستان پراس انداز کی شرائط عائد کی ہوتیں تو آج اس ملک کا معاشی زوال موجودہ انتہا کو نہ پہنچتا ۔آئی ایم ایف کو اس سے کیا دلچسپی تھی؟اس کا کام قرض کی قسط دینا اور اس کا سود وصول کرنا تھا ۔سود کی قسط اسے وقت پر مل جاتی تھی باقی پاکستانی عوام جانیں اور حکومت اسے غرض نہیں تھی۔نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی منصوبہ سازوں اور حکمرانوں کو قرض کی قسطوں پر عیاشیاں کرنے کی لت پڑ گئی ۔احتساب کا نظام روز اول سے ہی مفلوج اور مرضی کا رہا ۔سیاسی ضرورتوں کے تحت احتساب گاڑی کا انجن سٹارٹ کیا جاتا رہا ہے اور ضرورت پوری ہونے پر اس انجن کو بند کرکے ٹھنڈا کیا جاتا رہا ۔یوں احتساب کا نظام نظریہ ٔ ضرورت کے تابع رہا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس ملک کے وسائل کی ہڈی بوٹی نوچنا رواج بن گیا ۔اس کی رگوں کا خون نکال کر منی لانڈرنگ کے ذریعے امریکہ برطانیہ سویزرلینڈ ،سنگا پور اور متحدہ عرب امارات کی
معیشت کی رگوں میں داخل کیا جاتا رہا ۔پاکستان سے پیسہ پانی کی طرح بیرونی ملکوں میں منتقل کیا جاتا رہا اور اس کے لئے انسانی کیرئیر تیار کئے گئے جنہیں ریاستی سرپرستی حاصل رہی اور وہ ڈالروں میں رقوم باہر منتقل کر تے رہے ۔اس نیٹ ورک کو توڑنا آسان تو تھا ہی نہیں مگر اس میں کسی نے دلچسپی بھی نہیں لی ۔کرپشن بالادست طاقتوں کا مسئلہ ہی نہیں تھا جبکہ حقیقت میں پاکستان کا پہلا مسئلہ ہی کرپشن تھا ۔پاکستان میں دوجماعتی نظام کے کمزور ہونے کا عمل کرپشن مخالف اور احتساب حمایت نعروں سے ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام مدت دراز تک کرپشن کو مسئلہ سمجھتے رہے مگر عوام کی خواہشات کی اہمیت ہی کیا جب فیصلہ کرنے والے طبقات اس راہ میں عملی پیش رفت نہ کریں ۔سیاست دانوں کی دیکھا دیکھی بیوروکریٹس نے بھی منی لانڈرنگ کے نیٹ ورک کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا راستہ اپنایا اورمحکمہ برقیات کے لائن مین یا محکمہ مال کے پٹواری سے گریڈ بیس کے افسروں تک کاریگروں
کی جائیدادیں کھربوں میں پہنچ گئی ۔جو سرکاری ملازم محکمہ اینٹی کرپشن کا نام سن کر کانپتے تھے یا اپنے محلے اور گائوں میں لائف سٹائل کی اچانک تبدیلی پر عوام کے طعنوں سوالوں اور ہمسایوں کی سراپا سوال خشمگیںنگاہوںسے خوف زدہ ہو کر اپنا دامن صاف رکھتے تھے بالادست طبقات میں کرپشن عام ہو نے پر رسیاں تڑوا کر اس راہ پر دوڑنے لگے بلکہ نئے باس کو کھانے پینے کے گُر سکھانا بھی انہوں نے اپنے فرضی منصبی کا تقاضا سمجھ لیا ۔افسروں کی طرف حکام بالا کے کسی غیر قانونی حکم کی عدم تعمیل اور حرف انکار تو قصہ کہانی ہو کر رہ گیا۔ محکمہ اینٹی کرپشن کا ڈر تو پچھلی صدی کی کہانی اور محمد حسین آزاد کا فسانہ عجائب ہو کر رہ گیا وہ تو نیب اعلیٰ عدالتوں اور معاشرے سے بے نیاز اور لاپرواہ ہو کر بہتی گنگا میںہاتھ دھونے لگے ۔عہدے اور منصب کا دوسرا مطلب ہی اپنا میعار
زندگی بلند کرنا ہو کر رہ گیا ۔یوں معاشرے کا چلن او رکلچر روایات واقدار ہی تبدیل ہو گئیں ۔اب بدعنوان افسر کا تیزی سے بدلتا ہوا لائف سٹائل معاشرے میں سوال کی بنیاد نہیں رہا بلکہ معاشرے کا آئیڈیل بن کر رہ گیا ۔اسے ایک کامیاب انسان کا درجہ حاصل ہوا۔نوے کی دہائی میں مغربی اور خلیجی ملکوں نے کرپشن کے پیسے کو اپنی جانب کھینچنا شروع کیا اور دوہزار کی دہائی میں یہ سلسلہ بام عروج تک جا پہنچا ۔اسی دور میں سرکاری افسر اورسیاست دان ریٹائرڈ فوجی پاکستان محض افسری کرنے کے لئے مقیم رہے ان کے گھر ان ملکوں میں بنے جہاں انہیں کاروبار کے نام پر پیسہ منتقل کرکے شہریتیں عطا کی جاتی رہیں ۔ آج پاکستان میں بیوروکریٹس کی ایک بڑی تعداد دوہری شہریت کی حامل ہے۔ کرپشن کا پیسہ جن ملکوں میں جاتا تھا وہ خوش بھی تھے اور اس سرمائے کے تحفظ اور بچائو کی کوششوں میں مصروف بھی رہے ۔اس سرمائے کو تحفظ دینے پر مغربی ملکوں کو بارہا تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔پاکستان میں پہلی بارسابق وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے مغربی ملکوں کے اس رویے پر کڑی تنقید کی تھی کہ وہ غریب اورترقی پزیر ملکوں کے کرپشن کے پیسے کو تحفظ دیتے ہیں اور اس سرمائے کی واپس متعلقہ ملکوں کو منتقلی کی کوششوں کا ساتھ نہیں دیتے ۔یہ اپنے ملکوں میں کرپشن پرزیرو ٹالرنس کا رویہ اپنانے اور غریب ملکوں میں کرپشن کو فروغ دینے کے متضادرویوں کو بے نقاب کرنے کی موثر کوشش تھی مگریہ صدا بھی صدا بصحرا ثابت ہوئی ۔اب آئی ایم ایف کی طرف سے احتساب کی باتیں اور بیوروکریسی کے اثاثوں کو پبلک کرنے کے مطالبات کی باتیں اگر صحیح ہیں تو یہ عالمی مالیاتی ادارے کے رویے میں ایک بڑی تبدیلی ہے ۔اسی دبائو کے نتیجے میں ہی اگر پاکستان میں کرپشن کے عمل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو تو اسے غنیمت سمجھنا چاہئے۔یوں لگتا ہے کہ سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی شرط کی بات سامنے لا کر آدھی بات کی جارہی ہے ۔ہونہ ہواکہا نی کچھ اور ہے اور یہ شرائط کی ایک طویل فہرست کا ایک جزو ہوگا ۔اس فہرست سے کچھ نام نکال کر کچھ ناموں کی تشہیر سے صرف بیوروکریسی کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہو ۔کرپشن صرف سرکاری ملازمین نے تو نہیں کی اس میں فیصلہ ساز اور سیاست دان بھی شریک ہیں ۔یہ ملک کسی ایک فرد اور طبقے کے اعمال کی سزا نہیں بھگت رہا بلکہ ایک پیہم، منظم اور اجتماعی کوشش کے باعث اس حال کو پہنچا ہے۔

مزید پڑھیں:  وزیر اعظم محنت کشوں کو صرف دلاسہ نہ دیں