آزمائشوں میں قیادت کی ذمہ داریاں

اس بات میں تو کوئی شک نہیں اور نہ ہی کوئی دوسری بات اور رائے ہوسکتی ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کلمہ طیبہ کے نام و برکت سے وجود میں آیا ہے۔ اس لئے حالات کتنے بھی دگر گوں ہو جائیں ہم جیسے سادہ لوح یہ یقین کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کہیں نہ کہیں ہے کوئی سبیل اور مخرج پیدا فرما ہی لے گا ۔اگرچہ وطن عزیز پراس وقت جو اقتصادی ابتلا و آزمائش طاری ہے اس میں ہماری سیاسی قیادت ، اشرافیہ، اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی کا پورا پورا ہاتھ اور دوش ہے۔
اقتصادی و معاشی بحران اقوام پر آتی رہتی ہیں ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اچھے اچھے ملک معاشی بدحالی کے شکار ہوئے تھے ۔ اسلامی تاریخ میں حضرت عمر فاروق کا دور مبارک اسلامی عہد حکمرانی کا بہترین زمانہ رہا ہے۔ اس مدت میں عوام عیش و فراغت کی زندگی بسر کر چکے ہیںلیکن آپ ہی کے دور میں نو ماہ کی طویل قحط سالی کے سبب اسلامی سلطنت ابتلا و آزمائش سے دوچار ہوئی ۔ لیکن فرق یہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں جب کبھی ابتلا کا دور آیا ہے ، مسلمانوں کے حکمرانوں نے کمال و بے مثال قیادت و سیادت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو عوام کی خدمت کئے ہمہ تن پیش کیا ہے۔
ایسے مواقع پر سب سے اہم بات یہ ہوتی تھی کہ حکمرانوں کی قیادت میں ہے۔اللہ تعالیٰ سے فریاد و دعا و عبادت کے ذریعے مدد طلب کی جاتی تھی ۔ حضرت عمر فاروق نے قحط سالی کے دنوں میں لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ۔ اے لوگو!اپنے ظاہری اعمال میں، نیز تمہارے جو معاملات لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں ، سب میں اللہ سے ڈرو۔میں تمہارے ذریعے سے اور تم میرے ذریعے سے آزمائے گئے ہو۔ میں نہیں جانتا کہ الٰہی ناراضی تم کو چھوڑ کر جو پر نازل ہوئی ہے یا مجھ کو چھوڑ کر تم پر نازل ہوئی ہے(لیکن) یہ ناراضی ہم سب کوشامل ہے ۔ آئو ہم سب مل کر دعا کریں کہ وہ ہمارے دلوں کی اصلاح کرنے اور ہم پر رحم فرمائے اور ہم سب سے اس آفت (قحط سالی، اقتصادی بحران) کو دور کر دے۔ اس موقع پر جب آپ سے منبر سے اترے تو خود بھی گریہ کناں تھے اور لوگ بھی رو رہے تھے ۔
پاکستان میں اس وقت کم و بیش وہی قحط سالی والی صورت حال ہے۔ عوام مہنگائی کے ہاتھوں شب و روز کی ضروریات زندگی خریدنے سے قاصر ہیں ۔ ہم دیوالیہ ہو چکے ہیں اور اس کے اعلان سے بچنے کے لئے آئی ایم ایف کے تلوے چاٹنے پر اس کے باوجود مجبور ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں سرمایہ داروں’جاگیر داروں اور بیورو کریسی کے پاس اربوں ڈالر بیرون و اندرون ملک موجود ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب پچھلے دنوں قوم کو خوشخبری کے انداز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوچکا اور ایک ہفتہ کے اندر مال آجائے گا لیکن اس کے نتیجہ میں مہنگائی ضرور آئے گی جس کے لئے ہمیں(عوام)کو قربانی دینی پڑے گی۔ عوام بے چاری چاہے نہ چاہے ہمیشہ سے قربانی کا بکرا ہے جب چاہیں، پکڑیں، اور قربان کریں۔
وزیراعظم صاحب نے اس موقع پر کمال سخاوت اور ایثار کا مظاہرہ کرتے رہے فرمایا کہ میں نے وزراء کی تنخواہیں اور مراعات بند کر دی ہیں ۔ لگژری گاڑیوں اور نئی گاڑیوں کی خریداری پرپابندی عائد کی ہے ۔ یہ خوشخبری بھی سنائی کہ سرکاری گھر نیلام ہوںگے ۔
ہم خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
آپ سے پہلے کپتان نے بھی گورنر ہائوسز میں یونیورسٹیاں اور عوام کی فلاح کے لئے ہسپتال وغیرہ قائم کرنے کے وعدے و ا علانات کئے تھے ۔ لیکن چاروں صوبوں میں آج بھی کئی کئی ایکڑوں پر مشتمل وسیع وعریض ہائوسز آج بھی عوام کے سینوں پردال منگ رہی ہیں۔ غضب خدا کا انگریز دورکے اسسٹنٹ وڈپٹی کمشنر کے لئے جوبڑے بڑے گھر اور دفاتر بنائے گئے تھے وہ آج بھی اسی طرح ہمارے کالے انگریزوں کے قبضے میں ہیں جبکہ خود انگریز وزیراعظم دس ڈائوننگ سٹریٹ پرتین چار کمروں کے گھرمیں مقیم ہوتا ہے ۔ اگر ہمارے سپیڈی وزیراعظم واقعی عوام کا درد دل میں لئے ہوئے ہیں اور اپنے کپڑے تک بیچنے کے لئے تیار ہیں تو یہ مشکل کام بالکل نہ کریں یعنی نہ اپنے دل کو عوام کے احساس و درد سے مجروح کریں اور نہ ہی اپنے کپڑے بیچ کر لنگوٹیا پہننے پر مجبور ہوں ‘ بلکہ اپنے اور اپنے بھائی ‘بیٹیوں ‘ بھتیجوں’ بھتیجی اور پی ڈی ایم میں شامل دیگرجماعتوں کے سربراہوں ‘ بیرون ملک رہنے والے جرنیلوں اور نوکر شاہی کے افسروں کی جائیداد اور اثاثوں کی تفصیل پیش کریں اور ان میں سے تھوڑا ایثار وقربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک تہائی حصہ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لئے وقف کردیں۔اگر ہم سے بیس گنا زیادہ امیر اور تین گنا وسیع و عریض ملک بھارت کے اراکین اسمبلی بھارت ہی کی تیار کردہ چھوٹی ماروتی گاڑی میں لوک سبھا کی اجلاسوں میں شریک ہونے کے لئے آسکتے ہیں تواس غریب ملک کے اراکین اسمبلی ‘ جرنیل اور بیورو کریٹس پاکستان میڈ نہ سہی جاپانی 660سی سی کی گاڑیوں کو زیراستعمال لائیں نا۔ پاکستان سے کسی کی شان اور قیمت زیادہ نہیں ہے ۔کیاچھوٹی گاڑی کے استعمال سے پھوں پھاں میں کمی واقعی ہوتی ہے ؟ ہاں۔۔ کیونکہ ہم نے سرکاری وسائل پر اپنی ذات اور شان بڑھانے کو معمول بنالیا ہے ۔جوحکمران عوام اور قوم میں سے ہوتے ہیں اور اس کادعویٰ رکھتے ہیں ان کو خلفائے راشدین بالخصوص حضرت عمر فاروق کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔ عوام آج کل مہنگائی کے سبب دووقت کا جو کھانا بمشکل زہر مار کر رہے ہیں کیا ہماری اشرافیہ نے کبھی اس کا تجربہ کرنے کا تصور کیا ہے ؟ ۔۔ ذرا بھیس بدل کر چاروں صوبوں کی دارالحکومتوں میں عوام کے شب و روز اور معمولات زندگی کا جائزہ تو لیں نا۔۔۔
حضرت عمر فاروق نے رات کے گشت کا معمول اسی قحط سالی کے زمانے میں بنا لیا تھا تب ان کا گزر اس بڑھیا کے گھر پر ہوا تھا جو بھوکے بچوں کو دلاسا دلانے کے لئے پانی میں پتھر ڈال کر ابال رہی تھی۔ اس زمانے میں یعنی عام الرمادہ(قحط کے موقع) پرجب سیدنا عمر فاروق کے پاس کھانے کے لئے گھی میں چپڑی ہوئی روٹی(پراٹھا) پیش کیاگیا ‘ تو آپ نے ایک بدومہاجر کو اس کھانے میں شریک کیا بدو نے اس روٹی کو جس شوق سے کھایا ‘ تو سیدنا عمر فاروق نے اس سے پوچھا ‘ ایسا لگتا ہے کہ تم کو گھی کبھی میسر نہیں آیا ؟ اس نے کہا ‘ جی ہاں ‘ فلاں وقت سے میں نے گھی اور روغن نہ چکھا ہے اور نہ کسی کویہ کھاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اس کی بات سن کر سیدنا عمر فاروق قسم کھالی کہ جب تک میری عوام کوخوشحالی و فراخی کی زندگی نہ مل جائے ‘ اس وقت تک نہ وہ گوشت کھائیں گے اور نہ ہی گھی کو ہاتھ لگائیں گے ‘ اور آپ نے یہ قسم اس وقت پوری کی جب بازار میں گھی عام آدمی کوملنے لگا ‘ اعلیٰ حکمرانی (Good Governance) کی ایسی مثال دنیا میں آج کم ہی ملتی ہے ۔ لیکن کیا ہمارے حکمران صرف اس سے اتنا سیکھ سکتے ہیں کہ سیاست میں دشمیناں ترک کرکے عوام اور پاکستان کی بقاء کی خاطر سب مل کر اپنے اپنے اثاثوں سے حصہ بقدر جثہ ڈالتے مملکت خداداد کو ”بھیک منگا” ملک کے لقب سے نجات دلائیں۔

مزید پڑھیں:  قومی ترانے کی بے حرمتی